1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خاشقجی قتل کی ریکارڈنگز سعودی عرب کے لیے بھی دھچکا، ایردوآن

13 نومبر 2018

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل سے متعلق ریکارڈنگز ’باعث تکلیف اور بیزار کن‘ ہیں، جو خود سعودی انٹیلیجنس کے ایک افسر کے لیے بھی بہت بڑا دھچکا تھیں۔

https://p.dw.com/p/388Up
جمال خاشقجیتصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo

استنبول سے منگل تیرہ نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ترک میڈیا نے بتایا کہ صدر ایردوآن کے بقول انقرہ حکومت نے جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل سے متعلق جو ریکارڈنگز ترکی کے اتحادی چند مغربی ممالک کو فراہم کی ہیں، وہ قابل نفرت، انتہائی حد تک بیزار کن اور تکلیف میں مبتلا کر دینے والی ہیں۔

Portraitfoto: Mohammed bin Salman
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمانتصویر: picture-alliance/AP/A. Nabil

خاشقجی کو، جو ایک سعودی شہری، امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم نگار اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ناقد تھے، اکتوبر کے مہینے کے اوائل میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

اس قتل کے بارے میں دستیاب شواہد کی روشنی میں ترک صدر ایردوآن نے کہا تھا کہ خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی حکومت کی طرف سے ’اعلیٰ ترین سطح‘ پر دیا گیا تھا۔

اس بارے میں سعودی حکام نے پہلے تو چند ہفتوں تک یہی موقف اختیار کیے رکھا تھا کہ خاشقجی اچانک لاپتہ ہو گئے تھے لیکلن جب ترک حکام نے سکیورٹی کیمروں کی فوٹیج کی مدد سے یہ دعویٰ کر دیا کہ خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصل خانے تو گئے تھے لیکن باہر نکلے ہی نہیں تھے، تو سعودی حکام نے یہ اعتراف کر لیا تھا کہ اس صحافی کو قونصل خانے ہی میں قتل کر دیا گیا تھا۔

Türkeiräsident Erdogan berichtet über Audioaufnahmen zum Fall Khashoggi
ترک صدر خاشقجی قتل سے متعلق آڈیو ریکارڈںگز کی تفصیلات بتاتے ہوئےتصویر: picture-alliance/AP Photo/Presidential Press Service

اسی قتل کے بارے میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے بعد ازاں یہ اعتراف بھی کر لیا تھا کہ خاشقجی کا قتل ایک ’بہت بڑی اور بھیانک غلطی‘ تھا، جو چند سعودی اہلکاروں کے مجرمانہ اقدامات کا نتیجہ تھا اور جس میں سعودی حکومت یا ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا قطعاﹰ کوئی عمل دخل نہیں تھا۔

ریاض حکومت کے اس موقف کے برعکس ترک صدر ایردوآن نے ویک اینڈ پر کیے گئے اپنے فرانس کے ایک دورے سے وطن واپسی پر پیر کی شام صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے امریکی، فرانسیسی اور جرمن رہنماؤں کے ساتھ پیرس میں ایک عشائیے کے دوران جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں بھی بات چیت کی تھی۔

صدر ایردوآن نے کہا، ’’(جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق) یہ ریکارڈنگز اتنی بیزار کن اور تکلیف میں مبتلا کر دینے والی ہیں کہ جب سعودی انٹیلیجنس کے ایک افسر نے انہیں سنا، تو وہ بھی شدید دھچکے کا شکار ہو گیا اور اس نے کہا، جس کسی نے بھی یہ کام کیا ہے، اس نے ہیروئن کا نشہ کیا ہو گا۔ ایسا صرف ہیروئن کا نشہ کرنے والا کوئی شخص ہی کر سکتا ہے۔‘‘

Türkei Konsulat von Saudi-Arabien in Istanbul
جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کیا گیاتصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

رجب طیب ایردوآن نے مزید کہا، ’’جو کوئی بھی ہم سے یہ ریکارڈنگز حاصل کرنا چاہتا تھا، ہم نے یہ اسے سنائی ہیں۔ ترک انٹیلیجنس کے پاس چھپانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ جس جس نے بھی ہم سے درخواست کی، ہم نے یہ ریکارڈنگز سب کو سنائیں۔ سعودی، امریکی، فرانسیسی، جرمن، برطانوی اور کینیڈین حکام کو بھی۔‘‘

جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں ترک صدر نے ایک بار پھر کہا کہ اس قتل کا حکم سعودی عرب کے شاہ سلمان کی طرف سے آ ہی نہیں سکتا تھا، جن کا خود ایردوآن ’لامحدود احترام‘ کرتے ہیں۔ ’’لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس قتل کا حکم اعلیٰ ترین سعودی حکام کی طرف سے دیا گیا تھا۔‘‘

صدر ایردوآن نے مزید کہا، ’’سعودی ولی عہد کہتے ہیں کہ وہ اس معاملے کی وضاحت کریں گے اور جو کچھ بھی ضروری ہوا، وہ کریں گے۔ ہم (ترکی) ابھی تک بڑے صبر سے (اس وضاحت کا) انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

م م / ع ب / روئٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں