1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن بس میں چاقو سے حملہ کرنے والا کون؟

21 جولائی 2018

شمالی جرمن شہر لیوبک شہر کے قریب ایک بس میں مسافروں پر چاقو کے ذریعے حملہ آور ہونے والے مشتبہ ملزم کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اس واقعے میں نو افراد زخمی ہوئے، تاہم اب تک اس حملے کے محرکات سامنے نہیں آئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/31qum
Deutschland Messerattacke in Lübecker Linienbus
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ بس ترافیمونڈے کے قصے کی جانب بڑھ رہی ہے، جو لیوبک شہر کے قریب ایک معروف سیاحتی ساحل ہے۔

لیوبک کی چیف پراسیکیوٹر  اُولا ہِنگسٹ نے بتایا کہ چلتی بس میں حملہ آور نے چاقو نکالا اور مسافروں پر وار شروع کر دیے۔ شمالی جرمن ریاست شلسوِگ ہولشٹائن کے وزیرداخلہ ہانس ژوآخم گروٹے کے مطابق اس واقعے میں چھ افراد چاقو کے وار سے زخمی ہوئے، جب کہ دیگر تین کو دیگر چوٹیں آئیں۔ اس حملہ آور نے بس ڈرائیور کو بھی مکے مارے۔

جرمنی میں بس کے مسافروں پر چاقو سے حملہ، متعدد افراد زخمی

’عورتوں کو کبھی حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے‘

ہِنگسٹ نے بتایا، ’’شکر ہے اس واقعے میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔‘‘

مقامی چیف پراسیکیوٹر ہِنگسٹ کے مطابق، ’’فی الحال یہ بات حتمی طور پر واضح نہیں ہے کہ یہ حملہ کن حالات میں کیا گیا اور اس کے پس پردہ کیا عوامل تھے، اس کے لیے ہماری تفتیش جاری ہے۔ اس حملے کے بعد ڈرائیور نے بس روک دی اور دروازے کھول کر مسافروں کو باہر نکلنے کا موقع فراہم کیا۔

ایک عینی شاہد لوتھر ایچ کے مطابق، ’’بس رکتے ہیں مسافروں نے باہر چھلانگیں لگا دی۔ سب لوگ چیخ رہے تھے۔ نہایت خوف ناک منظر تھا۔ پھر بعد میں زخمیوں کو باہر لیا گیا۔ حملہ آور کے پاس باورچی خانے میں استعمال ہونے والی چھری تھی۔‘‘

گروٹے نے بتایا کہ بس ڈرائیور نے برق رفتاری اور بہادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملے کی سنگینی کو کم کیا۔

بتایا گیا ہے کہ واقعے کے وقت ایک پولیس کی گشتی گاڑی اس بس کے قریب ہی تھی، جس نے بروقت پہنچ کر حملہ آور کر حراست میں لے لیا۔

ہِنگسٹ نے بتایا کہ مبینہ حملہ آور 34 برس کا ایرانی نژاد جرمن شہری ہے۔ ’’ہمیں فی الحال ایسے اشارے نہیں ملے کہ اس واقعے کے درپردہ سیاسی نوعیت کی شدت پسندی کارفرما ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ اب تک اس مشتبہ حملہ آور نے واقعے سے متعلق بات چیت نہیں کی ہے۔ اس ملزم کو ہفتے کے روز عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اس حملہ آور نے اپنے بیگ کو بھی آگ لگائی، تاہم اس بیگ میں کوئی آتش گیر یا دھماکا خیز مواد موجود نہیں تھا۔

اس واقعے کی وجوہات سے متعلق تو تفیصلات سامنے نہیں آئیں، تاہم واضح رہے کہ متعدد شدت پسندانہ حملوں کی وجہ سے جرمنی میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ برلن میں سن 2016 میں ایک کرسمس مارکیٹ پر ہونے والے حملے سمیت متعدد دیگر دہشت گردانہ واقعات کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ قبول کر چکی ہے اور جرمن حکام خبردار بھی کر چکے ہیں کہ اس انداز کے مزید حملوں کے خطرات موجود ہیں۔

ع ت، ع ح (اے ایف پی)