1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں خودکش بم حملہ، کم از کم بارہ افراد ہلاک

10 جولائی 2018

افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد میں ایک حملہ آور نے سکیورٹی فورسز کی ایک گاڑی کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس واقعے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/319cy
Afghanistan Selbstmordanschlag in Dschalalabad
تصویر: Reuters/Parwiz

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آج منگل 10 جولائی کو کیے گئے اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد عام شہریوں کی ہے۔ افغانستان میں حالیہ کچھ عرصے میں پرتشدد حملوں کے واقعات میں ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھا گیا ہے۔

امریکا کابل اور طالبان کے مذاکرات میں تعاون کرے گا، پومپیو 

’طالبان کے بہترین جنگجوؤں کی تربیت ایران کر رہا ہے‘

 

منگل کے روز یہ دھماکا جس مقام پر ہوا، وہاں قریب ہی ایک پٹرول پمپ بھی واقع تھا، جس میں آگ بھڑک اٹھی۔ حکام کے مطابق اس واقعے میں دیگر چار افراد زخمی بھی ہوئے۔ صوبائی گورنر کے ایک ترجمان نے اے ایف پی سے بات چیت میں اس حملے اور جانی نقصان کی تصدیق کی ہے۔

گورنر کے ترجمان کے مطابق اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں آٹھ عام شہری تھے۔ اس کے علاوہ جھلس جانے کی وجہ سے متعدد افراد کو ہسپتال بھی منتقل کیا گیا ہے۔

صوبائی ڈائریکٹر برائے صحت نجیب اللہ کماول نے اے ایف پی کو بتایا کہ بعض افراد شدید جھلسی ہوئی حالت میں لائے گئے ہیں، جن کی جان بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ایک عینی شاہد عصمت اللہ نے اے ایف پی کو بتایا، ’’میں نے آگ کا ایک بہت بڑا گولا دیکھا، جس نے لوگوں کو اڑا کر دور پھینک دیا۔‘‘

فی الحال اس حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے، تاہم ننگرہار صوبے میں حالیہ کچھ عرصے میں پرتشدد واقعات ایک تسلسل سے دیکھے گئے ہیں۔ اس سے قبل پاکستانی سرحد سے ملحق اس صوبے میں ہونے والے بڑے حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے، جب کہ اس علاقے میں افغان فورسز امریکی فوجیوں کے ساتھ مل کر اس گروپ کے خلاف بڑے فوجی آپریشن میں بھی مصروف ہیں۔

’افغانستان ميں حالات بہتر ہوں گے تو واپس چلا جاؤں گا‘

اے ایف پی کے مطابق افغانستان میں طالبان اب بھی سب سے بڑا عسکری گروپ ہیں، تاہم اسلامک اسٹیٹ چھوٹا ہونے کے باوجود ملک کے مشرقی اور شمالی حصوں میں بڑے حملوں میں ملوث رہا ہے۔

منگل کے روز یہ حملہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کی جانب سے کابل کے ایک غیر اعلانیہ دورے کے موقع پر صرف ایک روز قبل اس امید کا اظہار کیا گیا تھا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہو سکتے ہیں۔

وزارت خارجہ کا قلم دان سنبھالنے کے بعد پومپیو کا یہ پہلا دورہ افغانستان تھا۔ انہوں نے اپریل میں اس عہدے کا حلف اٹھایا تھا، جب کہ گزشتہ ماہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان عیدالفطر کے موقع پر چند روزہ فائربندی بھی طے پائی تھی۔ مائیک پومپیو نے افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ اپنی ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا، ’’پیش رفت کا عنصر یہ بتا رہا ہے کہ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔‘‘

ع ت / الف ب الف / اے ایف پی