یوکرائن: علاقائی الیکشن کمزور حکمران اتحاد کا بڑا امتحان
25 اکتوبر 2015کئی محاذوں پر بیک وقت نبردآزما یوکرائنی حکمران اتحاد کی مقبولیت میں حالیہ کچھ مہینوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ ایک طرف روسی توسیع پسندی کے خطرات، دوسری طرف ملکی معیشت کی زبوں حالی، پھر مہنگائی میں مسلسل اضافہ اور ساتھ ہی مشرقی علاقوں میں جاری جنگ۔ ایسی صورت حال میں یہ انتخابات یہ طے کر دیں گے کہ یوکرائنی عوام کیا چاہتے ہیں۔
سابقہ سوویت یونین کی اس ریاست میں 20 ماہ قبل غیرمعمولی عوامی مظاہرے ہوئے تھے، جن کا اختتام روس نواز صدر وکٹور یانوکووچ کے اقتدار کے خاتمے پر ہوا اور یورپ میں یوکرائن کے نئے مستقبل کی نوید سامنے آئی۔ اس دوران روس نے کریمیا کا یوکرائنی علاقہ خود میں ضم کر لیا اور مشرقی یوکرائن میں روس نواز باغیوں نے مسلح بغاوت کر دی، جس میں اب تک آٹھ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ کریمیا کا علاقہ یوکرائن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اس لیے رکھتا تھا کہ وہاں بے شمار اہم صنعتیں تھی اور اہم ترین بحرے اڈے قائم تھے۔ کریمیا کے یوکرائن سے دوبارہ الحاق کا مطالبہ بھی اب تقریباﹰ دم توڑ چکا ہے اور اب حکومت ملک کے مشرقی حصے کو بچانے میں مصروف ہے، جس کے بارے میں خدشات ہیں کہ وہ ’منجمد علاقے‘ میں تبدیل ہو سکتا ہے، جہاں مرضی روسی صدر پوٹن کی چلے گی۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن گو کہ متعدد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ مشرقی یوکرائنی تنازعے سے ان کا کوئی تعلق نہیں، تاہم لگتا یوں ہی ہے کہ یوکرائن کو روسی اثر و رسوخ کے دائرے سے نکل کر یورپی دائرے میں داخل ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔
40 ملین کی آبادی والے ملک یوکرائن میں مغرب نواز حکمران اتحاد کی مقبولیت گزشتہ برس مئی میں خاصی زیادہ تھی، تاہم ملک میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے قرضوں کی وجہ سے سخت بچتی اقدامات نے اس مقبولیت کو نصف تک پہنچا دیا ہے۔
وزیر اعظم آرسینی یاتسینی یُک حکمران اتحاد کے سب سے بڑے پارٹنر ہیں اور انہوں نے رواں برس پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اب ان علاقائی انتخابات میں ان کی جماعت اپنے امیدوار اس خوف سے کھڑے نہیں کیے کہ اسے بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عوام کی برہمی میں اس لیے بھی اضافہ ہوا ہے کہ کییف حکومت کی جانب سے اپیلوں کے باوجود مغربی ممالک نے یوکرائنی فورسز کو ہتھیار فراہم نہیں کیے اور مالیاتی مدد بھی سخت شرائط و قواعد کے ساتھ دی گئی۔ ملک کے مشرق میں علاقائی انتخابات کے انعقاد میں ناکامی پر بھی حکمران اتحاد کو سخت عوامی تنقید کا سامنا ہے۔