1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان میں مسلم مہاجرین کے لیے عید پر تحفہ، پہلی باقاعدہ مسجد

عاصم سليم6 جولائی 2016

يونانی دارالحکومت ايتھنز کی آبادی لگ بھگ چار ملين نفوس پر مشتمل ہے، جس ميں دو لاکھ مسلمان بھی شامل ہيں۔ سلطنت عثمانيہ سے سن 1832 ميں آزادی حاصل ہونے کے بعد سے اب تک اس شہر ميں کوئی باقاعدہ مسجد تعمير نہيں ہو سکی۔

https://p.dw.com/p/1JKBt
تصویر: picture alliance/AA/A. Mehmet

عيد الفطر کے موقع پر چھ جولائی کے روز ايتھنز کی مسلمان برادری نے مختلف مقامات پر نماز ادا کی۔ کسی نے گاڑی کھڑی کرنے والے گيراج ميں با جماعت نماز ادا کی تو کسی نے کہيں کسی گودام ميں۔ مختصراﹰ یہ کہ ایتھنز شہر ميں کسی بھی باقاعدہ مسجد کی عدم موجودگی کے سبب دو لاکھ کے قريب مسلمانوں نے ايسے ہی مقامات پر نماز ادا کی۔

رواں برس جون ميں يونانی وزير اعظم اليکسس سپراس نے اس عزم کا اظہار کيا کہ وہ ايتھنز ميں بسنے والے مسلمانوں کے لیے شہر میں پہلی مسجد اور اس مذہب کے ماننے والوں کے ليے ايک باقاعدہ قبرستان بھی بنوائيں گے۔ يونانی وزير تعليم نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے ليے عارضی مساجد کے قيام کے لائسنس جاری کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا اور اس پر عملدرآمد بھی کيا گیا۔ ليکن يہ مقامات اکثر اوقات دائيں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے یونانی شدت پسندوں کے حملوں کی زد ميں رہے۔

Griechenland Ramadan Fastenbrechen in Ritsona Flüchtlingslager bei Athen
تصویر: DW/J. Hilton/Pulitzer Center

يونان کی شيعہ برادری کے نمائندے عاشر حيدر کے مطابق يہ ايک انتہائی مثبت قدم ہے۔ انہوں نے کہا، ’’يہ ہمارے ليے باعث مسرت بات ہے اور ہميں يہ جان کر کافی سکون محسوس ہوا کہ ہميں تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔‘‘ حيدر نے اپنے جاننے والوں کے ہمراہ عيد کی نماز ايک تہہ خانے ميں پڑھی، جو ايتھنز ايک خاصے خراب محلے ميں واقع ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ مہاجرين کے بحران کے تناظر ميں ان دنوں تقريباً پچاس ہزار مہاجرين يونان ميں مختلف مقامات پر قيام پذير ہيں۔ ان مہاجرين کا تعلق شام، عراق، افغانستان اور پاکستان جيسے مسلم ملکوں سے ہے۔ يہی وجہ ہے کہ حاليہ دنوں ميں عبادت اور نماز کے ليے کسی باقاعدہ مقام کے مطالبات اور بھی پر زور دکھائی ديے۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں بھی ايتھنز ميں مسلمانوں کی کسی باقاعدہ عبادت گاہ نہ بنائے جانے پر تنقید کرتی رہی ہیں۔ ايتھنز يورپی سطح پر ان چند ايک ہی دارالحکومتوں ميں شامل ہے جہاں مقامی مسلمانوں کے ليے مساجد نہيں۔ سلطنت عثمانيہ کے دور حکومت کے بعد سن 1880 ميں مسجد کے قيام کی کوشش کی گئی تھی تاہم وہ کامياب نہ ہو سکی۔ پھر سن 2004 ميں بھی ايسی کوشش ہوئی ليکن وہ بھی ناکام ثابت ہوئی۔