1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ کے لاپتہ مہاجرین کے گم شدہ بچے

عاطف توقیر12 جون 2016

ترکی اور یونان کے بیچ بحیرہء ایجیئن کی تیز موجوں اور ہواؤں نے اس کشتی سے سمتیں چھیں لیں جس پر 50 تارکین وطن سوار تھے اور یوں اس سمندر نے غلام حیدر کے خان دان اور بوٹ پر سوار دیگر افراد کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔

https://p.dw.com/p/1J5B4
Türkei Flüchtlingslager syrische Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/AA/I. Erikan

پھر جب رفتہ رفتہ یہ کشتی ڈوب رہی تھی، تو حیدر نے اپنے سات سالہ بیٹے شہزاد کو بچا لیا، مگر اپنے بیٹےکو بچانے کی اس کوشش میں اس کی نگاہ اپنے خان دان کے دیگر افراد سے ہٹ گئی اور یہ خان دان ایک دوسرے سے بچھڑ گیا۔

گزشتہ آٹھ ماہ سے حیدر اپنی بیوی شیلا، آٹھ سالہ بیٹی زہرہ اور تین سالہ بیٹے بہزاد کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

حیدر کا کہنا ہے، ’’اب میری زندگی کا واحد مقصد اپنے خان دان کو تلاش کرنا ہے۔‘‘

افغانستان سے تعلق رکھنے والے حیدر نے اس دوران کوسٹ گارڈز، امیگریشن حکام، بین الاقوامی امدادی اداروں اور یونانی و ترک حکومتی عہدیداروں سے رابطہ کیا، تاہم اب تک اسے اپنی فیملی کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

اس کے دو بچوں کی مسکراتی تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’سرچ اینڈ فائنڈ یور فیملی فار ریفیوجیز‘ یا ’اپنے اہل خانہ ڈھونڈو اور تلاش برائے مہاجرین‘ نامی صفحے پر شائع کی جا چکی ہیں۔

یہ فیس بک صفحہ تصاویر اور معلومات کے ذریعے بچھڑ جانے والے مہاجر خان دانوں کو ملانے کا کام سر انجام دے رہا ہے اور سمتبر سے اب تک 172 معاملات نمٹا چکا ہے۔اس صفحے کے بانی آسٹریا سے تعلق رکھنے والے جمی ناگی ہیں۔

Flüchtlinge Grenze Mazedonien Serbien Balkan Route Winter Kälte
سینکڑوں مہاجر خان دان ایک دوسرے سے بچھڑ گئےتصویر: Reuters/M.Djurica

اسی صفحے کے ذریعے تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن نے حیدر سے رابطہ کیا، تاہم اب تک حیدر کی جانب سے جاری کردہ اس اپیل کا اب تک کوئی جواب یا مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

 شہر استنبول سے خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت میں حیدر نے کہا، ’’میں نے تمام ہسپتال چھان مارے، مگر مجھے ان کی نعشوں تک کا کوئی پتہ نہیں ملا۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ وہ زندہ ہیں۔‘‘

حیدر کی طرح مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا کے جنگ اور غربت سے تنگ سینکڑوں افراد نے یورپ کی جانب ہجرت کے دوران اپنے خان دان کھو دیے اور اب وہ بہتر زندگی کے خواب ایک طرف رکھ کر بس اپنے خان دان کو ایک بار پھر دیکھ لینے کی خواہش پر دن گزار رہے ہیں۔