1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ مزید مہاجرين کو پناہ نہيں دے سکتا، فرانسيسی وزير اعظم

عاصم سليم25 نومبر 2015

فرانسيسی وزير اعظم مانوئل والس نے کہا ہے کہ پناہ گزينوں کے بحران کے حوالے سے يورپی ممالک اپنی حد تک پہنچ چکے ہيں اور اب مزيد مہاجرين کو پناہ فراہم کرنا ممکن نہيں۔

https://p.dw.com/p/1HC9o
تصویر: Getty Images/T. Chesnot

مانوئل والس نے کہا ہے کہ يورپ ميں اب مزيد تارکين وطن کو پناہ فراہم نہيں کی جا سکتی اور اٹھائيس رکنی يورپی بلاک کا مستقبل يورپ کی بيرونی سرحدوں کی کڑی نگرانی سے جڑا ہے۔ انہوں نے يہ بات ايک جرمن اخبار ’زُوڈ ڈوئچے سائی ٹنگ کو ديے گئے اپنے ايک انٹرويو ميں کہی، جو بدھ پچيس نومبر کو شائع ہوا۔

مانوئل والس نے اپنے انٹرويو ميں البتہ ميرکل پر براہ راست تنقيد سے گريز کيا۔ ہنگری ميں پھنسے ہوئے شامی پناہ گزينوں کو آگے بڑھنے کے ليے پناہ سے متعلق يورپی قوانين کی عارضی معطلی کے فيصلے پر بات کرتے ہوئے والس نے کہا کہ يہ جرمنی کی جانب سے ’قابل احترام‘ فيصلہ تھا۔ تاہم فرانسيسی وزير اعظم نے يہ بھی کہا کہ ميرکل کے فيصلے نے انہيں چونکا ديا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’فرانس يہ کہنے والا ملک نہيں تھا کہ يہاں آ جائيں۔‘‘

فرانسيسی وزير اعظم کا یہ انٹرویو ایک ایسے وقت میں شائع ہوا ہے، جب جرمن چانسلر انگيلا ميرکل فرانسيسی دارالحکومت پيرس ميں صدر فرانسوا اولانڈ سے ملاقات کرنے والی ہيں۔ جنگ و جدل سے پناہ کے ليے يورپ کا رخ کرنے والے پناہ گزينوں کے ليے ’کھلے دل اور کھلے دروازوں‘ کی پاليسی کے سبب ابتداء میں ميرکل کو داخلی سطح پر سراہا گيا تھا تاہم مہاجرين کی بڑی تعداد ميں مسلسل آمد کے نتيجے ميں جيسے جيسے متعدد مسائل نمودار ہوتے جا رہے ہيں، ويسے ويسے ميرکل پر اس حوالے سے اب تنقيد ميں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ پيرس ميں ہونے والے حاليہ دہشت گردانہ حملوں کے تناظر ميں مہاجرين کے حوالے سے يورپ سطح پر جاری بحث اب زيادہ ’سياسی‘ ہو گئی ہے۔

مانوئل والس کے بيان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرين انٹونيو گُتیریس نے کہا ہے کہ پيرس حملوں کے تناظر ميں جنگ اور تشدد سے بھاگنے والے پناہ گزينوں کے ليے دروازے بند نہيں کيے جانے چاہييں۔ گُتیریس نے جاپانی دارالحکومت ٹوکيو ميں بدھ کے روز ايک پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’پناہ گزين خود دہشت گردی کا شکار بنے ہيں اور يہ تفريق کرنا لازمی ہے۔‘‘ کمشنر نے مزيد کہا کہ پيرس حملے مہاجرين کی وجہ سے نہيں ہوئے بلکہ حملہ آور بظاہر ’داخلی عوامل کی پيداوار لگتے ہيں۔‘

جرمن چانسلر انگيلا ميرکل فرانسيسی دارالحکومت پيرس ميں صدر فرانسوا اولانڈ سے ملاقات کرنے والی ہيں
جرمن چانسلر انگيلا ميرکل فرانسيسی دارالحکومت پيرس ميں صدر فرانسوا اولانڈ سے ملاقات کرنے والی ہيںتصویر: T. Schwarz/AFP/Getty Images

دريں اثناء فرانسيسی وزير اقتصاديات ايمانوئل ماکرون اور ان کے جرمن ہم منصب زيگمار گابريل نے دس بلين يورو کے ايک فنڈ کے قيام کا مشورہ ديا ہے۔ اس مجوزہ فنڈ کی مدد سے بہتر سکيورٹی انتظامات، سرحدوں کی نگرانی ميں اضافہ اور مہاجرين کی مقابلتاً بہتر ديکھ بھال ممکن ہو سکے گی۔ فرانسيسی وزير کے ايک قريبی ذرائع کے مطابق اگر فريقين چاہيں تو اس فنڈ کا قيام آئندہ چند ہی ہفتوں ميں ممکن ہے۔

يورپ کو ان دنوں اپنی تاريخ ميں دوسری عالمی جنگ کے بعد مہاجرين کے بد ترين بحران کا سامنا ہے۔ سال رواں کے دوران اب تک مشرق وسطٰی، شمالی افريقہ اور ايشيا کے شورش زدہ ملکوں سے قريب ايک ملين پناہ گزين يورپ پہنچ چکے ہيں۔ تارکين وطن کی بھاری اکثريت مغربی يورپ کے ملک جرمنی ميں سياسی پناہ کی خواہاں ہے۔