یورپی یونین کا مستقبل: ’برطانیہ مکالمت میں شامل رہے‘، میرکل
23 جون 2016وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے جمعرات تئیس جون کی شام موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق چانسلر میرکل نے کہا کہ برطانیہ میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں اگر ملکی عوام اپنے وطن کے یورپی یونین سے اخراج کا فیصلہ کر بھی لیتے ہیں، تو بھی ایک بلاک کے طور پر یورپی یونین کے مستقبل سے متعلق ہونے والی بحث ایک ’تسلی بخش اور پرسکون انداز‘ میں کی جانا چاہیے اور برطانیہ کو آئندہ بھی اس بحث کا حصہ بنے رہنا چاہیے۔
جرمن سربراہ حکومت نے، جو حالیہ ہفتوں کے دوران اس 28 ملکی بلاک میں بار بار برطانیہ کے لیے حمایت کا اظہار کرتی رہی ہیں، برلن میں کہا کہ اگر ممکن ہو تو ’بریگزٹ‘ کے منفی نتیجے کی صورت میں بھی لندن کی اس یورپی بلاک کے ساتھ مشاورت مستقبل میں بھی جاری رہنا چاہیے۔
وفاقی چانسلر نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا، ’’آئندہ منگل (28 جون) کو شروع ہونے والی یورپی یونین کی سربراہی کانفرنس میں ہم مل کر اور ٹھنڈے دماغ کے ساتھ یہ مشورے کریں گے کہ آئندہ بھی مشترکہ یورپی ایجنڈے پر عمل درآمد کو کس طرح یقینی بنایا جا سکتا ہے۔‘‘
برطانیہ میں اس ملک کے یورپی یونین سے ممکنہ اخراج یا پھر آئندہ بھی یونین میں شامل رہنے کے فیصلے کے لیے ایک عوام ریفرنڈم آج ہی ہو رہا ہے، جس کے ابتدائی نتائج نصف شب کے بعد آنا شروع ہوں گے۔
جرمنی میں حکمران وسیع تر مخلوط حکومت کے سیاسی رہنماؤں نے آج کے برطانوی ریفرنڈم سے قبل زیادہ تر اس بات سے اجتناب ہی کیا تھا کہ وہ اس استصواب رائے سے قبل برطانیہ میں جاری سیاسی مہم کے دوران اپنی طرف سے کوئی رائے دیں۔ اس کا مقصد زیادہ تر اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ برطانوی عوام یہ نہ سوچیں کہ ان کے ملکی معاملات میں یورپی یونین کی طرف سے بہت زیادہ مداخلت کی جاتی ہے۔
اسی تناظر میں وفاقی جرمن صدر یوآخم گاؤک نے بھی بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں ایک یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ برطانیہ اور باقی ماندہ یونین میں ’بریگزٹ‘ سے متعلق بھرپور بحث یہ ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح بہت سے یورپی باشندے حد سے زیادہ طاقتور یورپی یونین کے بارے میں اپنے ذہنوں میں قدرے بے چینی محسوس کرتے ہیں اور یہ کہ سیاست دانوں کو بھی اپنے فیصلوں میں ’حد سے تجاوز‘ نہیں کرنا چاہیے۔
جرمن صدر نے اپنے اس بیان کے ساتھ ہی یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ برطانیہ کی یورپی یونین میں رکنیت سے متعلق ریفرنڈم کو اس طرح دیکھنا بھی غلط ہو گا کہ جیسے ’یورپی یونین کو کسی انتشار یا ٹوٹ پھوٹ کے عمل‘ کا سامنا ہے۔
اس سے قبل جرمن وزیر خزانہ وولفگانگ شوئبلے نے بھی اسی مہینے خبردار کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ برطانیہ کے بارے میں یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کے لیے بھی سوئٹزرلینڈ اور ناروے جیسی صورت حال پیدا ہو جائے۔ یہ دونوں یورپی ملک یونین کے باقاعدہ رکن تو نہیں ہیں لیکن وہ یورپی مشترکہ منڈی کی وجہ سے ملنے والی جملہ سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔