1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین مہاجرین کے معاملے میں ’ناکام‘ رہی، ینکر

عاطف توقیر15 جنوری 2016

یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود ینکر نے کہا ہے کہ یورپی یونین کی رکن ریاستیں مہاجرین کے بحران کے حل کے لیے مل کر کام کرنے میں ناکام رہیں اور ایسے میں ریاستی سرحدوں کی دوبارہ نگرانی داخلی منڈی کے لیے قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HeFF
Belgien EU-Kommission berät über umstrittene Reformen in Polen
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Hoslet

پندرہ جنوری جمعے کے روز یورپی کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے سرحدوں پر جانچ پڑتال کا عمل دوبارہ متعارف کرانے سے یورپی یونین کی داخلی مارکیٹ کو شدید نقصان پہنچے گا۔ نئے سال کے لیے اپنی ترجیحات بتاتے ہوئے ینکر نے کہا کہ وہ ہزاروں مہاجرین کو مختلف یورپی ممالک میں تقسیم کرنے اور بسانے سے متعلق اپنی کاوشیں جاری رکھیں گے۔ یہ بات اہم ہے کہ اٹلی اور یونان میں لاکھوں مہاجرین موجود ہیں اور گزشتہ برس اکتوبر میں یورپی یونین کی رکن ریاستوں نے مشرقی یورپی ممالک کی مخالفت کے باوجود اس بارے میں ایک معاہدے پر اتفاق کر لیا تھا۔

شام اور دیگر ملکوں سے ترک وطن کے بعد یورپی یونین میں داخل ہونے والے مہاجرین میں سے مجموعی طور پر ایک لاکھ ساٹھ ہزار پناہ گزینوں کو مختلف یورپی ممالک میں تقسیم کیا جانا ہے، تاہم اب تک صرف 272 مہاجرین ہی کو اس معاہدے کے تحت مختلف ممالک میں پہنچایا جا سکا ہے۔

Frankreich EU Parlament Jean-Claude Juncker
مہاجرین کے بحران کے معاملے میں یورپی یونین اختلاف رائے کا شکار رہی ہےتصویر: AFP/Getty Images/F. Florin

28 رکنی یورپی یونین کے انتظامی بازو یورپی کمیشن کے سربراہ ینکر کا برسلز میں ایک پریس کانفرنس میں کہنا تھا، ’’یورپی کمیشن نے اس سلسلے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’اس بحران کے حل کے لیے کیا کیا جانے چاہیے اور کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ متعدد رکن ریاستیں اس سے مکمل طور پر نمٹنے میں ناکام رہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس بحران کے حل کے لیے مل کر کام کرنے اور ایک مشترکہ حل نکالنے کی بجائے رکن ریاستیں دوبارہ سرحدی نگرانی شروع کر رہی ہیں، جس سے یورپی یونین میں آزادانہ نقل و حرکت کا شینگن معاہدہ خطرت میں پڑ گیا ہے۔

’’شینگن کی موت یورپی یونین کی داخلی مارکیٹ کی بھی قبر ہو گی، جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہو گا اور پھر اس سے نمٹا نہیں جا سکے گا۔‘‘

یورپی یونین پہلے ہی بڑے اقتصادی مسئلے کا شکار ہے اور مجموعی طور پر دس فیصد افراد بے روزگار ہیں۔ اسپین اور یونان میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح تو 50 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

’’جب اس مسئلے کے اثرات نیچے تک پہنچیں گے، تو اقتصادی طور پر ہمیں ترقی میں کمی کی صورت میں ایک بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’شینگن کے بغیر، مزدوروں اور ملازمین کی آزاد نقل و حرکت اور یورپی یونین کے شہریوں کی آزادنہ سفر کی سہولت متاثر ہو گی اور بالآخر یورو مارکیٹ کے باقی رہنے کی کوئی وجہ نہیں بچے گی۔‘‘