یورپی یونین اور چین کے درمیان ملاقات کا منظر نامہ
20 مئی 2009یورپی یونین اور چین کے درمیان تعطل کے شکارملاقاتی عمل پرسے سردمہری کی برف ہٹنے لگی ہے۔ دونوں بڑے تجارتی حلیف آج بدھ کو یورپی یونین کے صدارت والے ملک چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ میں ملاقات کریں گے۔
گزشتہ سال دسمبر میں پیرس میں ہونے والی ملاقات کو چین نے احتجاجاً منسوخ کردیا تھا کیونکہ چینی انتباہ کے باوجود فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے جلاوطن تبتی راہ نما دلائی لامہ سے ملاقات کی تھی۔
ترتیب کے اعتبار سے گیارہویں میٹنگ گزشتہ سال پہلی دسمبر کو شڈیول تھی مگر یہ نہ ہو سکی۔ آج کی ملاقات میں کئی اہم معاملات بات چیت کے ایجنڈے پر شمار کئے جا سکتے ہیں۔
عالمی مالیاتی بحران کے تناظر میں جنوری میں فریقین میں یہ اتفاق پیدا ہوا تھا کہ اختلافات کو دفن کرتے ہوئے مستقبل کی طرف دھیان دیا جائے۔ اِس اتفاق رائے کے بعد دونوں فریقوں کے بیچ تعلقات میں سابقہ گرم جوشی لوٹ آئی تھی۔
چینی وزیر اعظم وین جیاباؤ اور یونین کے صدر ملک چیک جمہوریہ کے صدر واسلاو کلاؤس کے درمیان ہونے والی ملاقات میں ماینمار میں اپوزیشن راہ نما اونگ سن سوچی کے خلاف جاری مقدمے کے حوالے سے یورپی خدشات سے چینی لیڈر کو آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ سفارتی ذرائع کا خیال ہے کہ اِس مسئلے پر چین کو قائل کرنا مشکل ہو گا کیونکہ اُس کے خیال میں فوجی حکومت اپوزیشن کے ساتھ بہتر تعلقات کے عمل میں ہے۔
سن دو ہزار آٹھ میں یورپ کے چین کے ساتھ ہونے والے تجارتی حجم کا تعین تین سو بیس ارب یورو لگایا گیا ہے۔ اِس میں یورپی یونین کے رکن ملکوں کو ایک سو ستر ارب یورو کا خسارہ بھی پیش آیا۔ اِس تناظر میں جرمنی میں ادارہ برائے ترقیاتی سیاست میں چینی امور کی ماہر ڈورس فشر کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کو بیجنگ حکومت سے باربار یہ مطالبہ کرنا پڑتا ہے کہ چین مخصوص شعبوں میں اپنی منڈیوں کو اور بھی کھول دے۔ یا پھر یہ مطالبے کہ چین اپنے اُن وعدوں کو بھی لازمی طور پر پورا کرے جو اُس نے عالمی ادارہٴ تجارت کے مذاکراتی دائرہ کار کے تحت کر رکھے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی چینی حکام یورپی یونین پر باربار واضح کرنے کی کوشش میں ہیں کہ وہ یورپی یونین کی ڈمپنگ کے خلاف پالیسی کو بہت اچھا نہیں سمجھتا۔
یورپی یونین کی یہ بھی خواہش ہے کہ چین شمالی کوریا کے پانچ اپریل کے میزائل تجربے کی مذمت بھی کرے۔ لیکن اِس کے باوجود ملاقات میں تبت کا معاملہ پوری توجہ کے ساتھ ابھرے گا کیونکہ یورپی یونین وہاں آزادئ رائے کے ساتھ ساتھ نسلی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بھی خواہاں ہے۔
چین یہ چاہتا ہے کہ یورپی یونین اُس کی حثیت کو مکمل مارکیٹ اکانومی کے تناظر میں تسلیم کرے جب کہ یونین سرمایہ کاری اور تجارت میں سہولتوں کے ساتھ ساتھ پائریسی کے حوالے سے بھی مناسب اورمثبت اقدامات وقت کی ضرورت خیال کرتی ہے۔ اِس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی کی صورت حال کے علاوہ ایران کے جوہری پروگرام کو مذاکراتی عمل میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔