یورپی یونین اور چین کا سربراہ اجلاس: شکایتیں بھی، وعدے بھی
13 جولائی 2016چین فولاد کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ چین میں اقتصادی ترقی کی رفتار کم ہونے کی بناء پر ملک کے اندر فولاد کی مانگ میں بھی کمی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے فولاد کی پیداواری گنجائش میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اب چینی کمپنیاں یہی فولاد اور فولاد سے بنی ہوئی دیگر مصنوعات عالمی منڈی میں انتہائی سستے داموں فروخت کر رہی ہیں۔
یہ صورتحال چین اور مغربی دنیا کے درمیان کشیدگی کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ یورپی یونین نے فولاد کی کئی چینی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کر دیے ہیں۔ اس نکتے کو بیجنگ میں یورپی یونین اور چین کے سربراہ اجلاس میں مرکزی موضوع کی حیثیت حاصل رہی۔ یورپی منڈی میں فولاد کی انہی سستی چینی مصنوعات کے باعث کئی یورپی کمپنیاں بند بھی ہو چکی ہیں۔
چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ نے یورپی حکام کو بتایا کہ چین اپنی معیشت کو آزادانہ خطوط پر اُستوار کرنے کے سلسلے میں اصلاحات کے راستے پر قدم آگے بڑھانے کے لیے بدستور پُر عزم ہے۔ لی کے مطابق چینی حکومت غیر ملکی کمپنیوں کو اپنی منڈی تک رسائی کے بہتر مواقع دینے کے لیے بھی کام کرتی رہے گی: ’’ہم چاہتے ہیں کہ چین اور یورپی یونین کے درمیان تجارت مستحکم بنیادوں پر آگے بڑھے۔‘‘
یورپی کمپنیوں کو ایک عرصے سے یہ شکایت ہے کہ اُنہیں چین میں غیر منصفانہ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں مقامی کمپنیوں کے ساتھ مقابلہ بازی میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ اس سمٹ میں شریک یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر نے کہا کہ بیجنگ حکومت کو یہ رکاوٹیں ختم کرتے ہوئے غیر ملکی کمپنیوں کو چینی حکومت کی جانب سے قانونی ضمانتوں کا سلسلہ بہتر بنانا چاہیے۔ لی کا کہنا یہ تھا کہ چین اپنی کمپنیوں کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے حکومتی اعانتوں کا طریقہ اختیار نہیں کرتا۔
لی نے البتہ یہ یقین دلایا کہ چین اور یورپی یونین کے درمیان کشیدگی کا باعث بننے والے فولاد کی اضافی پیداوار کے مسئلے کو تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے حل کرنے کی کوشش کی جائے گی: ’’چینی حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پُر عزم ہے اور ہمارے اقدامات مؤثر ہوتے ہیں۔‘‘
اس سمٹ میں چین نے جہاں ایک طرف سرمایہ کاری کے دو طرفہ سمجھوتوں پر بات چیت کی رفتار کو تیز تر کرنے کے عزم کا اظہار کیا، وہاں یورپی یونین کی جانب سے دو طرفہ تجارت کے لیے بہتر ماحول فراہم کیے جانے پر بھی زور دیا۔