1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین اور امریکہ کے مابین بڑھتے ہوئے فاصلے

16 فروری 2010

امریکہ کے مطابق جب القاعدہ سے لڑنے کا حقيقی موقع آتا ہے تو يورپی پيچھے ہٹ جاتے ہيں۔ امريکہ يہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ يورپی پارليمنٹ نے رقوم کی منتقلی کے بارے ميں معلومات امريکہ منتقل کرنے کے معاہدے کو کو مسترد کیوں کيا۔

https://p.dw.com/p/M2Yo
تصویر: AP

امريکہ گذشتہ کئی برسوں سے اُن رقوم کی نگرانی کر رہا تھا جو يورپی ممالک سے دوسرے ملکوں کو بھيجی جاتی ہيں۔ اس طرح امريکی حکام مالی وسائل کے دہشت گردی کے لئے استعمال کی روک تھام کرنا چاہتے ہیں۔ ليکن اب يورپی پارليمان نے يورپی شہريوں کے بارے ميں معلومات کی راز داری کے اصول کا حوالہ ديتے ہوئے امريکہ کے ساتھ ايک ایسے معاہدے کو نامنظور کرديا ہے، جس کے تحت بينک معلومات کو امريکی حکام کے حوالے کئے جانے کا سلسلہ جاری رکھا جانا تھا۔

EU Gipfel in Brüssel ### Achtung, nicht für CMS-Flash-Galerien! ###
یورپی مرکزی بینک کے سربراہ ژاں کلود تریشے، یورپی کمیشن کے صدر یوزے مانوئل باروسو، جرمن چانسلر انگیلا میرکل، یونانی وزیراعظم جارج پاپاندریو، فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی اور یورپی یونین کے صدر ہیرمن فان رومپوئےتصویر: AP

امريکی صدر اوباما يورپی ممالک کو ساتھ ملاتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے پر زور دیتے رہتے ہيں۔ انہوں نے ابھی کچھ ہی عرصہ قبل کہا تھا: ’’وقت آگيا ہے کہ امريکہ اور يورپ مل کر اکيسويں صدی کے چيلنجوں کا مقابلہ کريں‘‘۔

Tschechische Republik Obama Prager Burg Rede
امریکی صدر یورپی شہر پراگ میں خطاب کرتے ہوئےتصویر: AP

صدر اوباما يہ بھی کہہ چکے ہيں کہ برلن، پيرس اور برسلز کو عالمی دہشت گردی سے اُتنا ہی خطرہ ہے جتنا کہ نيويارک اور واشنگٹن کو۔ ان کے بقول: ’’اس لئے امريکہ اور يورپی ممالک القاعدہ نيٹ ورک اور اُس کے مددگاروں سے لڑنے کے لئے ايک دوسرے کے اتحادی ہيں‘‘۔

امريکی وزير خارجہ ہليری کلنٹن نے بھی فروری کے شروع ميں کہا تھا کہ اس معاہدے کو مسترد کرنے سے دہشت گردی کے خلاف امريکہ اور يورپ کی مشترکہ جنگ خطرے ميں پڑ جائے گی۔ اگرچہ کلنٹن نے مہذب لہجے ميں يہ بھی تسليم کيا تھا کہ يورپ کے ساتھ امريکہ کے اختلافات سے فرار ممکن نہیں، تاہم امريکی وزارت خارجہ اور وزارت دفاع ميں، خصوصاً افغانستان کی جنگ کے حوالے سے، يورپي ملکوں سے ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے میں رقوم کی بین الاقوامی منتقلی سے متعلق امريکہ کو معلومات کی فراہمی رک جانے اور اس سے متعلق معاہدے پر يورپی يونين کے انکار سے اس ناراضگی ميں مزید اضافے کا امکان ہے۔ امريکہ کو اميد تھی کہ اس سال يورپی ملک اپنے مزيد 10 ہزار تک فوجی افغانستان بھيجيں گے مگر يہ اميد لاحاصل ہی رہی۔

اب امريکی حکومت کا يہ نظريہ ہے کہ نازک عالمی مسائل پر پيش رفت کے لئے اُسے يورپی يونين کے بجائے الگ الگ يورپی ممالک سے بات چيت کرنا پڑے گی۔ مثلاً افغانستان ميں موزوں فوجی دستوں کے بارے ميں اسے برطانيہ سے گفتگو کرنا ہوگی، ايران پر مؤثر پابنديوں کے لئے اُسے ايران کے اہم تجارتی ساتھی جرمنی سے بات چيت کرنا پڑے گی اور رقوم کی بین الاقوامی منتقلی کے سلسلے ميں بھی اُسے انفرادی طور پر يورپی ملکوں سے بات کرنا ہوگی۔ يعنی يہ کہ يورپی يونين کے مقابلے ميں انفرادی طور پر يورپی ممالک زيادہ اہم ہيں۔ امريکی صدر اوباما نے ميڈرڈ ميں امريکی يورپی سربراہ کانفرنس ميں اپنی شرکت کے فيصلے کو منسوخ کر کے يہی پيغام ديا ہے۔

رپورٹ: رالف زینا / شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید