یمن میں جنگ بندی کے باوجود لڑائی جاری، امن مذاکرات ملتوی
18 اپریل 2016حوثی باغیوں اور یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے وفود نے سعودی عرب کے نمائندوں کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے پیر کے روز کویت پہنچنا تھا لیکن انہوں نے کویت جانے سے انکار کر دیا ہے۔ شیعہ حوثی باغیوں کے اتحادی اور یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کی جماعت جنرل پیپلز کانگریس پارٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اگر فائربندی کا احترام نہیں کیا جاتا تو کویت جانے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘‘
قبل ازیں اقوام متحدہ نے ثالث کا کردار ادا کیا تھا اور فریقین گیارہ اپریل سے فائر بندی کرنے پر متفق ہو گئے تھے۔ گزشتہ برس حوثی باغیوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے کے دارالحکومت صنعاء پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے بعد سعودی عرب کے حمایت یافتہ صدر نے جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔ بعدازاں گزشتہ برس مارچ میں ریاض حکومت نے اپنے چند خلیجی اتحادیوں کے ہمراہ یمن میں فضائی بمباری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
گزشتہ برس اقوام متحدہ نے جون اور دسمبر میں ہونے والے امن مذاکرات میں بھی ثالث کا کردار ادا کیا تھا لیکن جنگ کا خاتمہ پھر بھی نہ ہو سکا تھا جبکہ گزشتہ ایک برس میں چھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں سے نصف سے زائد تعداد عام شہریوں کی ہے۔
اس وقت سعودی عرب کی اتحادی فورسز اور حوثی باغیوں کے مابین متعدد محاذوں پر لڑائی جاری ہے۔ سعودی عرب خاص طور پر یمن کے جنوب مغربی شہر تعز اور دارالحکومت صنعاء کے مشرق میں فضائی بمباری جاری رکھے ہوئے ہے۔
یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب اسماعیل ولد شیخ احمد نے صنعاء میں موجود فریقین سے اپیل کی ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے کویت روانہ ہو جائیں، ’’اگلے چند گھنٹے انتہائی اہم ہیں۔ مجھے امید ہے کہ انصار اللہ (حوثی باغی) اور جنرل پیپلز کانگریس اس موقع کو ضائع نہیں کریں گے۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہی مزید جانوں کے ضیاع سے اجتناب کے ساتھ ساتھ تشدد کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
دوسری جانب سعودی عرب کے حمایت یافتہ وفد میں شامل ایک عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’صالح اور حوثی باغیوں کے نمائندے تاخیری حربے تلاش کر رہے ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ وہ منگل کے روز پہنچ جائیں گے۔‘‘