یمن میں امن کے قیام کی ایک اور امید
14 دسمبر 2015رواں برس مارچ میں سعودی عرب کی سربراہی میں قائم ہونے والے اتحاد نے یمن میں ایران نواز شیعہ باغیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔ اس تنازعے کو روکنے کے لیے اس سے پہلے بھی اقوام متحدہ دو کوششیں کر چکا ہے، جو ناکام ہو چکی ہیں۔ ان ناکامیوں نے یمن کو اپنی تاریخ کے بد ترین انسانی بحران اور افراتفری کا شکار کر دیا ہے۔ حوثی باغیوں کے ایک ترجمان عبدالسلام کے مطابق ’’یہ بات چیت یمن میں جنگ بندی کے خاتمے کے لیے اب تک کی جانے والی تمام کوششوں اور مذاکرات سے زیادہ اہم ہے‘‘۔ ان مذاکرات کی ضرورت مغربی ممالک کے ان خدشات کے بعد اور بھی بڑھ گئی تھی، جن کے مطابق ایک طرح سے سعودی عرب اور ایران کے مابین لڑی جانے والی یہ جنگ خطے کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اور اس طرح دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جاری کوششوں پر سے توجہ ہٹ سکتی ہے۔
یمنی صدر منصور ربہ ہادی کے نمائندوں کے مطابق مغربی ممالک یہ نہیں چاہتے کہ یمنی حکومت میں کسی بھی قسم کا کوئی ایسا خلاء پیدا ہو، جس سے اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو کوئی فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سے قبل یہ شدت پسند عدن اور دیگر کئی علاقوں میں پائی جانے والی لاقانونیت سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔
یمنی حکومت کے ایک سینیئر اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’ گزشتہ ہفتوں کے دوران واشنگٹن اور لندن نے صدر ہادی اور حکومت پر شدید دباؤ ڈالا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے موقف میں نرمی پیدا کریں اور سلامتی کونسل کی قرارداد پر سختی سے عمل کرنے کے معاملے میں انتہائی رویہ اختیار نہ کریں۔‘‘ اپریل میں منظور کی جانے والی سلامتی کونسل کی قرارداد میں حوثی باغیوں سے دارالحکومت صنعاء سمیت وہ تمام شہر خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، جن پر انہوں نے 2014ء اور 2015ء کے دوران قبضہ کیا تھا۔
یمنی ماہر فارع المسلمی کہتے ہیں تنازعے کے فریقین جنیوا مذاکرات کے حوالے سے انتہائی محتاط انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول ان پر امن کے قیام کے لیے بہت زیادہ سفارتی دباؤ بھی ہے تاہم فوری طور پر ان مذاکرات سے کسی بہت بڑے نتیجے کی امید کم ہی ہے۔’’ موجودہ مذاکرات سے ایک پائیدار فائر بندی، سعودی اتحادیوں کی جانب سے یمنی بندرگاہوں کی ناکہ بندی ختم کرنے اور بات چیت جاری رکھنے کے لیے ایک طریقہ کار پر اتفاق رائے کی ہی امید کی جا سکتی ہے۔‘‘