1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہیکرز ’ خاموش حملہ آور‘

عدنان اسحاق20 ستمبر 2016

سائبر حملے کا اکثر پتا ہی نہیں چلتا یا پھر جب ہیکنگ کا نشانہ بننے کا علم ہوتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ ہیکرز انتہائی پیشہ ور ہوتے جا رہے ہیں۔ ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے، یہ موضوع ہے اس مرتبہ سائبر سکیورٹی کانفرنس کا۔

https://p.dw.com/p/1K5Uo
تصویر: picture-alliance/blickwinkel

میونخ سکیورٹی کانفرنس ’ایم ایس سی‘ اور جرمن ٹیلی کوم گزشتہ تین برسوں سے مل کر سائبر سکیورٹی کانفرنس کی میزبانی کرتے آ رہے ہیں۔ ہر سال یہ کانفرنس جرمنی میں منعقد ہوتی رہی ہے تاہم اس مرتبہ امریکا کی سلیکون ویلی میں یہ اجلاس ہو رہا ہے۔ امسالہ سائبر سکیورٹی کانفرنس کے موضوعات ہیں ہیکنگ کے بڑھتے ہوئے حملے اور ان سے بچاؤ کا طریقہء کار، جنگ کا مستقبل، سائبر کی دنیا کے نئے ضوابط اور طریقہ کار، انسداد سائبر دہشت گردی اور اقتصادی شعبے میں سائبر سکیورٹی کی اہمیت۔

اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے بات کی جرمن ٹیلی کوم میں ڈیٹا تحفظ کے شعبے کے سربراہ تھوماس کریمر سے۔ ان سے پوچھا کہ اس مرتبہ اس اجلاس کے لیے امریکا کی سلیکون ویلی کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ کریمر نے کہا کہ سلیکون ویلی کی صورت میں ہمیں ایک ایسا میزبان مل گیا ہے، جو سائبر سکیورٹی کے ہر شعبے میں کافی متحرک ہے۔ ’’اسی خطے سے نئے طریقے متعارف کرائے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ سلیکون ویلی میں ماہرین اکھٹے بھی ہوتے رہتے ہیں۔‘‘

Nationales Cyber-Abwehrzentrum Logo
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke

کریمر نے مزید کہا کہ سائبر سکیورٹی ایک ایسا شعبہ ہے، جس میں یورپی ضوابط نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کی ضرورت ہے،’’اس لیے بہتر ہے کہ اسی جگہ پر ملا جائے، جو پہلے ہی سے ایک طرح کا مرکز ہو۔‘‘ اس سوال کے جواب میں دو سال قبل ہونے والی تیسری سائبر سکیورٹی کانفرنس کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟ تھوماس کریمر نے کہا، ’’پہلی سائبر سکیورٹی کانفرنس میں ہم نے کوشش کی کہ اس تاثر کو ختم کیا جائے کہ انٹرنیٹ تحفظ صرف ماہرین کا ہی مسئلہ ہے۔ میرے خیال میں ہم اس ہدف کو کافی حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اب عام صارفین کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی کمپنیاں اور کاروباری ادارے بھی سائبر سکیورٹی کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔‘‘