1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہیمو فیلیا کے مریضوں پر جین تھیراپی کا کامیاب تجربہ

14 دسمبر 2011

محققین نے جسم سے بہت زیادہ خون بہنے کے مرض ہیمو فیلیا کی شدید قسم میں مبتلا چھ مریضوں پر جین تھیراپی کا کامیاب تجربہ کیا ہے، جس سے اس مرض میں مبتلا مریضوں کے لیے امید کی نئی کرن پیدا ہوگئی ہے۔

https://p.dw.com/p/13SYy
تصویر: Fotolia/Alx

یہ تحقیق ابتدائی پیمانے پر کی گئی اور اس میں صرف چھ مریضوں پر تجربہ کیا گیا۔ نئے علاج کے تحت مریضوں کے جسم میں داخل کیا جانے والا مواد ایک سال سے زائد عرصے تک کارگر رہا اور ان کے جسم میں خون کو منجمد کرنے کی صلاحیت بڑھ گئی۔

نیویارک سٹی کے Weill Cornel Medical College میں شعبہ جینیٹک میڈیسن کے سربراہ ڈاکٹر رونلڈ کرسٹل نے کہا، ’’میرے خیال میں یہ اس میدان میں شاندار کامیابی ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی اچھا سبق ہے کہ ہمیں کبھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔‘‘

ہیمو فیلیا ایک موروثی اور ممکنہ طور پر ہلاکت خیز مرض ہے جس سے زیادہ تر مرد متاثر ہوتے ہیں۔ اس مرض میں مبتلا افراد میں ایک ناقص جین کے باعث جسم میں خون جمانے کی صلاحیت ناکارہ ہو جاتی ہے۔

بعض واقعات میں تو جسم کے اندر اچانک ہی خون بہنے لگتا ہے۔ جوڑوں میں اندرونی خون بہنے کے باعث چلنے پھرنے میں دشواری پیش آتی ہے اور اعضاء میں سخت درد ہوتا ہے۔

Diabetes Flash-Galerie
انیس سو ساٹھ کی دہائی سے ڈاکٹر ہیمو فیلیا کے مریضوں کو خون کو منجمد کرنے والی پروٹین دیتے آئے ہیںتصویر: AP

ماضی میں ہیمو فیلیا کے مریضوں پر کیے جانے والے جین تھیراپی کے تجربات میں خون کی منجمد ہونے کی صلاحیت صرف چند ہفتوں کے لیے ہی بہتر ہوتی تھی۔ نیشنل ہیمو فیلیا فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکیٹو وال بیاس نے کہا، ’’ہم زیادہ عرصے کے لیے اسے کامیاب نہیں کر سکتے تھے۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے طریقے کے مزید مریضوں پر تجربات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ یہ واقعی مؤثر ہے اور اس میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔

انیس سو ساٹھ کی دہائی سے ڈاکٹر ہیمو فیلیا کے مریضوں کو خون کو منجمد کرنے والی پروٹین دیتے آئے ہیں۔ یہ طریقہ کچھ کامیاب رہا ہے جس سے ان کی اوسط عمر 63 برس تک پہنچ گئی ہے۔ تاہم مرض کی سنگین حالت میں مبتلا مریضوں کو ہر ہفتے دو سے تین بار اس طریقہ ء علاج کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کے سالانہ اخراجات ڈھائی لاکھ ڈالر کے برابر ہیں۔

Asiatische Tigermücke
تحقیق میں چھ مریضوں کے جسموں میں صحت مند جینیٹک مواد داخل کیا گیا جو کہ بندروں میں پائے جانے والے ایک وائرس سے حاصل کیا گیا تھاتصویر: CC/somaskanda

نئی تحقیق میں چھ مریضوں کے جسموں میں صحت مند جینیٹک مواد داخل کیا گیا جو کہ بندروں میں پائے جانے والے ایک وائرس سے حاصل کیا گیا تھا۔ عام طور پر خلیوں میں ڈی این اے داخل کرنے کے لیے وائرس کا ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر مریض کے جسم میں خون کو منجمد کرنے والی پروٹین کی مقدار نارمل سطح کے کم از کم دو فیصد کے برابر پہنچ گئی جبکہ ایک مریض میں تو یہ گیارہ فیصد تک ہو گئی۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس طریقے میں کیا خطرات پوشیدہ ہیں۔ بعض ضمنی اثرات میں جگر کی سوزش ہونے کا امکان ہے۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں