ہونڈوراس: جلاوطن سیلایا واپس پہنچ گئے
29 مئی 2011ہونڈوراس کے دارالحکومت تیگوسی گالپا کے ہوائی اڈے پر ہفتہ کو ہزاروں حامیوں نے اٹھاون سالہ سیلایا کا استقبال کیا۔
ان کے بیشتر حامی سرخ ٹی شرٹیں پہنے ہوئے تھے۔ ان سے خطاب میں سیلایا نے کہا: ’ہم پوری اُمید سے لوٹے ہیں تاکہ ملک کو بحران سے نکالنے کا راستہ تلاش کر سکیں۔ ایک موقع پر ہم نے سب کچھ گنوا دیا تھا، لیکن ہم نے شکست نہیں کھائی۔‘
سیلایا نے اپنے حامیوں کا شکریہ بھی ادا کیا جبکہ فوج کی جانب سے ان کی حکومت گرائے جانے پر شروع ہونے والے مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت بھی پیش کیا۔
انہوں نے کہا: ’ان کا خون ضائع نہیں گیا کیونکہ ہم ابھی تک یہاں ہیں اور جدوجہد کر رہے ہیں۔‘
سیلایا کی واپسی ایک عدالتی فیصلے سے ممکن ہوئی ہے، جس میں بدعنوانی اور غداری کے الزامات کے تحت سیلایا کے خلاف چلنے والے مقدمات ختم کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
عدالتی فیصلے کے بعد سیلایا کے جانشین پورفیریو لوبو نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سیلایا کو واپس وطن آنے دیں گے اور اُن کی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے دیں گے۔
سیلایا نے جلاوطنی کا بیشتر عرصہ ڈومینیکن ریپبلک میں گزارا۔ ان کی جلاوطنی سولہ ماہ پر محیط رہی، جس کا خاتمہ دراصل لاطینی امریکہ کے متعدد ممالک کی ثالثی کے نتیجے میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت ممکن ہوا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سیلایا کے وطن لوٹنے سے تیگوسی گالپا حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاری اور امداد تک رسائی حاصل ہو سکے گی جبکہ وہ سفارتی سطح پر مزید تنہا نہیں رہے گی۔
سیلایا نیشنل پاپولر ریزسٹنس فرنٹ (ایف این آر پی) کی قیادت کریں گے۔ یہ جماعت ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد بنائی گئی تھی۔
خیال رہے کہ ہونڈوراس کا آئین دوسری مرتبہ صدارت پر فائز ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ یوں 2013ء میں ہونے والے انتخابات میں سیلایا امیدوار کی حیثیت سے سامنے نہیں آ سکتے۔ تاہم وہ اپنی 51 سالہ اہلیہ Xiomara Castroکو امیدوار کے طور پر سیاسی میدان میں اتار سکتے ہیں اور ان کے حامی ان سے یہی چاہتے بھی ہیں۔
سیلایا کو جون 2009ء میں ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں اُس وقت صدر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، جب انہوں نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اپنی دوسری مدتِ صدارت کو ممکن بنانے کی کوشش کی تھی۔
رپورٹ: ندیم گِل/ خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی