1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہولوکاسٹ کی یاد کا بین الاقوامی دن آج منایا گیا

عابد حسین
27 جنوری 2017

دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی میں اُس دور کی نازی حکومت نے تین لاکھ بیمار اور معذور افراد کو منظم انداز میں ہلاک کر دیا تھا۔ ان افراد کی یاد انٹرنیشنل ہولوکاسٹ ریمیمبرنس ڈے کے موقع پر تازہ کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2WWoj
Deutschland Gedenkstunde im Bundestag
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka

جمعہ ستائیس جنوری کے دن جرمن پارلیمنٹ میں انٹرنیشنل ہولوکاسٹ ریمیمبرنس ڈے کے موقع پر ایک خصوصی سوگواری تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب میں دوسری عالمی جنگ کے دوران خاموشی کے ساتھ مار  دیے گئے تین لاکھ بیمار اور معذور انسانوں کے حوصلے کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ ان افراد کو دوسری عالمی جنگ کے نظرانداز شدہ ہلاک شدگان کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔

اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جرمن پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں بنڈس ٹاگ کے اسپیکر نوربرٹ لامرٹ کا کہنا تھا کہ ایسے معذور افراد کو دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی حکومت نے سب سے پہلے گیس چیمبرز میں تجرباتی بنیاد پر بھسم کیا تھا۔ لامرٹ کے مطابق نازی حکومت کے اہلکار ان بیماروں اور معذوروں کو بے توقیر اور حقیر زندہ مخلوق سے تعبیر کرتے تھے اور ہولوکاسٹ کی شروعات انہی افراد کو جلا کر کی گئی تھی۔

Deutschland Holocaust Gedenkstunde des deutschen Bundestages Malu Dreyer, Jaochim Gauck, Angela Merkel, Andreas Vosskuhle
جرمن چانسلر اور صدر بھی اس خصوصی تقریب میں شریک تھےتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sohn

جرمن پارلیمنٹ میں منعقدہ تقریب میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی شریک تھیں۔ لامرٹ نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ نازی دور کے اذیتی مراکز میں منظم ہلاکتوں کا سلسلہ معذور اور علیل افراد کے قتل عام کے بعد بھی جاری رکھا گیا۔ یہ امر اہم ہے کہ نازی دور میں ایسے افراد کی ہلاکتوں کے پروگرام میں ماہر ڈاکٹر اور سائنسدان بھی شریک ہوتے تھے اور اس غیر انسانی پروگرام کو ’یُوتھینسیا‘ کا نام دیا گیا تھا۔

جنوری سن 1940 سے لے کر اگست سن 1941 کے دوران خصوصی ڈاکٹرز جامع منصوبہ بندی کے ساتھ ستر ہزار بیمار اور معذور افراد کو چھ مختلف اذیتی مراکز میں جلا کر راکھ کرتے رہے تھے۔ کئی افراد کو غیر ضروری اور عجیب و غریب طبی تجربات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اذیتی مراکز میں بے شمار مریضوں کو دوا کی نارمل مقدار سے کہیں زیادہ دیتے ہوئے موت کا تر نوالہ بنا دیا گیا۔

Deutschland Sebastian Urbanski Gedenkstunde an die Opfer des Nationalsozialismus im Deutschen Bundestag
ڈاؤنز سنڈروم میں مبتلا ایک مریض ارنسٹ پوٹسکی کا لکھا ہوا خط پڑھ کر سنایا جا رہا ہےتصویر: picture alliance/dpa/B. von Jutrczenka

اس تقریب میں ایک اداکار نے اُس خط کو پڑھا، جو ڈاؤنز سنڈروم میں مبتلا ایک مریض ارنسٹ پوٹسکی نے اذیتی مرکز سے اپنی والدہ کے نام تحریر کیا تھا۔ اس خط میں مریض نے اُن غیر انسانی اور ظالمانہ طریقوں کا احوال لکھا تھا، جو مریضوں کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔ خط میں مریض نے بیان کیا، ’’فاقوں سے مرنا مشکل ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ کب اُس کی باری آ جائے اور اب وہ سب فاقوں پر گزر بسر کر رہے ہیں‘‘۔ پوٹسکی یوتھینسیا سے تو بچ گیا لیکن سن 1945 میں نمونیے سے انتقال کر گیا۔

 یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ جب سن 1945 میں دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہوا تو لاکھوں لوگ بھوک، اذیتی عمل، عدم توجگی اور بے وجہ ٹارچر کے ساتھ نابود کر دیے گئے تھے۔