1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہنگری میں ہنگاموں کی شدت میں کمی

21 ستمبر 2006

مشرقی یورپی ملک ہنگری میں وزیر اعظم کا یہ اعتراف منظر عام پر آنے کے بعد کہ اُنہوں نے عوام سے جھوٹ بولا تھا، ہنگاموں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے تاہم اِن کی شدت میں قدرے کمی آ گئی ہے۔ دائیں بازو کی اپوزیشن عوام کے جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک گول میز کانفرنس کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کی کوششیں کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/DYJU
پولیس بوڈاپیسٹ کے ہنگاموں میں شریک ایک شخص کو گرفتار کر رہی ہے۔
پولیس بوڈاپیسٹ کے ہنگاموں میں شریک ایک شخص کو گرفتار کر رہی ہے۔تصویر: AP

ہنگری میں تازہ ہنگاموں کی وجہ وہ ریکارڈنگ تھی، جس میں وزیر اعظم فیرینس جُرچانئی نے اپنی حزبِ اقتدار کے بند کمرے میں منعقدہ ایک اجلاس میں 23 اپریل کو انتخابات جیتنے کے فوراً بعد یہ کہا تھا کہ اپنے دوبارہ انتخاب کو یقینی بنانے کے لئے اُنہوں نے ملکی معیشت کی حالت کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔

ہنگاموں کے بعد سے پولیس نے تقریباً 200 افراد کو حراست میں لیا، جن میں سے کئی ایک کو بعد میں رہا کر دیاگیا۔اگرچہ گذشتہ رات بھی ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ میں پولیس نے سینکڑوں عسکریت پسند حکومت مخالفین کے خلاف صبح تین بجے تک جاری رہنے والی کارروائی کے دوران آنسو گیس استعمال کی، 62 کو گرفتار کر لیا، پندرہ زخمیوں میں سے دو کو زیادہ شدید زخم آئے۔ تاہم پہلے کی راتوں کے مقابلے میں کل کی رات کے ہنگاموں کی شدت کافی کم رہی۔

جہاں کل شام بوڈا پیسٹ کے مرکزی کوسُوتھ چوک میں 15 ہزار افراد ایک قدرے پر امن مظاہرے کے لئے جمع ہوئے، وہاں آج اس جگہ جمع ہونے والے حکومت مخالفین کی تعداد ایک سو سے بھی کم رہی۔ ہنگری کے ذرائع ابلاغ کے مطابق آج ملک کے دیگر شہروں میں بھی چھوٹے چھوٹے مظاہرے ہوئے۔

وزیر اعظم فیرینس جُرچانئی نے، جو اپنے عہدے سے مستعفی ہونے سے انکار کر چکے ہیں، پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ نمائندوں کا ایک اجلاس طلب کر لیا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا حکومت ہنگاموں سے نمٹنے کے لئے بدستور کرفیو نافذ رکھنا چاہتی ہے۔

اپوزیشن ان ہنگاموں کو کیسے موجودہ حکومت کی تبدیلی کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے، اِس کا ذکر کرتے ہوئے دائیں بازو کی قومی فریڈم پارٹی کے سربراہ گیورگی ایکرم کے مال کہتے ہیں کہ یہاں معاملہ کسی ایک یا دوسری سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ تمام جماعتوں کے قومی اتحاد کا ہے اور یہ کہ یہاں پارلیمان کے سامنے اُنہوں نے جس تبدیلی کا آغاز کیا ہے، وہ موجودہ حکومت کے خاتمے پر منتج ہو گی۔

آئندہ اختتام ہفتہ پر مختلف اپوزیشن جماعتیں مل کر ایک بڑا مظاہرہ منظم کرنے والی تھیں تاہم سلامتی کی وجوہات بتاتے ہوئے اب اپوزیشن نے یہ جلسہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اپوزیشن کے ایک رہنما نے کہا کہ اُن کی جماعت کو بم حملوں اور دیگر اشتعال انگیزیوں کے منصوبوں کے حوالے سے ٹھوس اطلاعات ملی ہیں۔

اپوزیشن کی تحریک کی قیادت وکٹور اوربان کر رہے ہیں، جن کا اپوزیشن اتحاد سالِ رواں کے اوائل میں ہونے والے انتخابات ہار گیا تھا۔ اب وہ موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہنگری کے شہریوں نے پارلیمانی انتخابات میں گویا ایک ایسی حالت میں ووٹ ڈالے کہ اُن کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ ایسے میں ملک کی معیشت کی اصل حقیقت کے بارے میں عوام کو دھوکے میں رکھنے والی سوشلسٹ حکومت کے پاس حکومت میں رہنے کا کوئی قانونی جواز باقی نہیں رہ گیا۔

یہ اور بات ہے کہ ابھی وہ بھی یہ نہیں بتا سکے کہ وہ ہنگری کے قرضوں کے بھاری بوجھ کو کم کرنے کے لئے کیا تدبیر کر سکتے ہیں۔ دائیں بازو کے ا نتہا پسندوں کے ساتھ اُن کے اشتراکِ عمل کو سیاسی ماہرین محض اقتدار کے حصول کے لئے شروع کئے جانے والے ایک خطرناک کھیل سے تعبیر کر رہے ہیں۔

اسی دوران وزیر اعظم جُرچانئی نے اقتصادی بحران کے خاتمے اور بجٹ میں خسارے کو کم کرنے کے لئے اصلاحات کا اعلان کیا ہے۔