ہنگری میں جرمنی جانے کے منتظر مہاجرین
ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر پڑے ہوئے مہاجرین دو روز تک بے خبر رہے کہ آگے اُن پر کیا بیتے گی۔ ٹکٹ اُن کے پاس تھے لیکن سفر کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ جب اجازت ملی تو انہیں ایک کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔
کھلے آسمان کے نیچے
بہت سے مہاجرین نے ایسٹرن ریلوے اسٹیشن کے سامنے واقع جگہ پر ہی رات کو ڈیرے لگا لیے۔ ان لمحات میں اُنہیں بالکل نہیں پتہ تھا کہ آگے کیا ہو گا، کہیں جانے کی اجازت ملے گی بھی یا نہیں اور ملے گی بھی تو کب۔
’عارضی قیام کی جگہ‘
پولیس نے اس جگہ کو ’ٹرانزٹ زون‘ قرار دے دیا۔ یہ اور بات کہ ان حالات کو کسی صورت ٹرانزٹ کا نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ مہاجرین کو حکام کی طرف سے کافی دیر تک کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
آگے سفر کا انتظار
کئی ایک مہاجرین کو آگے مغربی یورپ کی جانب سفر کا انتظار کرتے کرتے دو روز ہو گئے ہیں۔ اُن کی الجھن بڑھتی جا رہی ہے۔
پولیس کی کارروائی کے خلاف احتجاج
قبل از دوپہر ریلوے اسٹیشن کے سامنے والی جگہ پر حالات قابو سے باہر ہوتے دکھائی دینے لگے۔ مہاجرین نے بلند آواز میں ہنگری کی پولیس کی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا۔
ریلوے اسٹیشن پر تالے پڑے رہے
صورتِ حال پر قابو پانے اور مہاجرین کو ریلوے اسٹیشن سے باہر ہی رکھنے کے لیے مزید پولیس بھیجی جاتی رہی اور پولیس کی نفری میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔
امید کی کرن
پھر اچانک مہاجرین کو ریلوے پلیٹ فارم تک جانے کی اجازت دے دی گئی۔ مہاجرین کو بتایا گیا کہ ایک ریل گاڑی اُنہیں آگے مغربی یورپ تک لے کر جائے گی۔
ریل پر چڑھنے کے لیے دھکم پیل
سینکڑوں مہاجرین نے ریلوے اسٹیشن کے مرکزی ہال پر ایک طرح سے دھاوا بول دیا۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح مغرب کو جانے والی ریل گاڑی پر سوار ہو جائے۔
اور بالآخر سفر شروع ہوا
ریل پر جگہ پانے والے تمام مہاجرین کا خیال یہ تھا کہ اب بالآخر اُنہیں ہنگری سے نکلنے اور اپنی پسند کے کسی یورپی ملک میں جانے کا موقع مل رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کی خواہش تھی کہ وہ جرمنی جائیں۔
جو پیچھے رہ گئے
ریل گاڑی پر سبھی مہاجرین سوار نہ ہو سکے۔ جو بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر ہی پڑے رہ گئے، اُن کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ تھی۔ ان لوگوں کو بہت بعد میں پتہ چلا کہ اگر وہ واقعی ریل پر چڑھنے میں کامیاب ہو جاتے تو کہاں پہنچ چکے ہوتے۔
ریل گاڑی کہیں اور جا پہنچی
جمعرات کو قبل از دوپہر دراصل ہوا یہ تھا کہ بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہونے والی ریل گاڑی کو شہر سے نکلنے کے تھوڑی ہی دیر بعد روک دیا گیا اور مہاجرین کو اترنے پر مجبور کر دیا گیا۔ اُنہیں ہنگری کے ایک مہاجر کیمپ میں پہنچا دیا گیا تاکہ وہاں اُن کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جا سکے۔
گہری بداعتمادی
بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر پڑے رہ جانے والے مہاجرین میں افغانستان کا شریفی بھی ہے، جس کے ساتھ اُس کی ایک سالہ بیٹی مہیبہ بھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اب اُسے ہنگری کے حکام پر کوئی اعتبار نہیں رہا۔