1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہنگری اور آسٹریا کی سرحد کھلنے کی بیسویں سالگرہ

19 اگست 2009

جدید یورپی تاریخ گواہ ہے کہ دیوار برلن کا خاتمہ ان تاریخی واقعات نے ممکن بنایا جودو عشرے قبل1989میں 19 اگست کو ہنگری اور آسٹریا کی سرحد پر رونما ہوئے تھے، اور جنہیں آہنی پردے کے خاتمے کے اصل محرک قرار دیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/JEQG
ٹھیک دو عشرے قبل ہنگری سے آسٹریا میں داخل ہونےوالے مشرقی جرمن شہریتصویر: picture alliance/dpa

1989 کے وسط میں کمیونسٹ مشرقی جرمنی سے عام شہریوں کی سیاسی پناہ گزینوں کے طور پر وسیع تر مہاجرت کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس میں ہنگری کا کردار انتہائی فیصلہ کن تھا۔ وجہ ہنگری اور آسٹریا کی سرحد پر وہ اجتماع بنا جسے ٫پین یورپین پکنک‘ کا نام دیا گیا تھا۔ تب ہنگری نے آسٹریا کے ساتھ اپنی قومی سرحد کو علامتی طور پر کچھ دیر کے لئے کھول دیا تھا۔

آہنی پردہ

اس سرحد کے ایک طرف اشتراکی نظام حکومت تھا، دوسری طر ف سرمایہ دارانہ، مغربی، جمہوری طرز سیاست، اور درمیان میں وہ نظریاتی فاصلے اور انتہائی سخت سیکیورٹی انتظامات جنہیں ایک بڑے آہنی پردے کا نام دیا جاتا تھا۔ ہنگری نے محض چند گھنٹوں کے لئے آسٹریا کے ساتھ اپنی سرحد کھولی تو عام شہریوں کے فرار کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گیا، جس نے منقسم جرمنی کے مشرقی حصے پر مشتمل اشتراکی جرمن ریاست کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں۔

Grenzöffnung zwischen Ungarn und Österreich 1989
آسٹریا اور ہنگری کے وزرائے خارجہ باہمی سرحد پر لگی خاردار باڑھ کو علامتی طور پر کاٹتے ہوئےتصویر: DPA

جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک میں یہ معمول کی بات تھی کہ اس کے شہری چھٹیاں منانے کے لئے صرف ان اشتراکی ریاستوں میں جاتے تھے جو دوست ملک کہلاتے تھے۔ 1989میں مشرقی جرمنی میں حکمران سوشلسٹ یونٹی پارٹی کی سیاسی قیادت GDR کے قیام کی 40 ویں سالگرہ منانے کے انتظامات میں مصروف تھی کہ ہزاروں مشرقی جرمن باشندوں نے اپنی گرمیوں کی چھٹیوں کو کمیونسٹ نظام حکومت سے فرار کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔

مغربی جرمن سفارتی مراکز کی بندش

پراگ اور بوڈاپیسٹ میں مغربی حصے کی وفاقی جرمن ریاست کے سفارت خانے اور مشرقی برلن میں وفاقی جمہوریہ جرمنی کے مستقل دفتر کی عمارتیں مشرقی جرمنی سے آنے والے مہاجرین سے بھر چکی تھیں، جس کے نتیجے میں یہ سفارتی مراکز بند کرنا پڑ گئے تھے۔

27 جون کو ہنگری نے آسٹریا کے ساتھ اپنی بین الاقوامی سرحد کھولی تو نہیں تھی مگر خاردار تاروں کو علامتی طور پر کاٹ دیا گیا اور سرحدی نگرانی کا عمل بھی نرم کر دیا گیا تھا۔ تب ہر روز کمیونسٹ جرمنی کے کئی عام شہری سرحد پار کر کے پہلے ہنگری سے آسٹریا اور پھر وہاں سے مغربی جرمنی پہنچنے لگے۔ یہ جرمن باشندے اشتراکی طرز معیشت کے اثرات اور ریاستی خفیہ اداروں کے ستائے ہوئے ہوتے تھے۔ مغربی جرمنی یا اس سے پہلے آسٹریا پہنچ جانے پر ایسے شہریوں کی خوشی قابل دید ہوتی تھی۔

علامتی طور پر سرحد کھولنے کا فیصلہ

ٹھیک دو عشرے قبل 19 اگست کو، جب اگلے روز ہنگری کا قومی دن منایا جانا تھا، ہنگری میں اپوزیشن کے کئی گروپوں اور ٫پین یورپین یونین‘ نے عام شہریوں کو آسٹریا میں بُرگن لینڈ میں سینٹ مارگیریٹن کے مقام پر اور ہنگری میں شوپرَون کے مقام پر ایک ٫پین یورپین پکنک‘ کی دعوت دی۔

Pan-Europäisches Picknick in Ungarn
بیس برس قبل ہنگری اور آسٹریا کی سرحد پر منائی جانے والی پکنک کا ایک منظرتصویر: AP

اس موقع پر ایک عشرے سے بند سرحد کا دروازہ علامتی طور پر چند گھنٹے کے لئے کھولا جانا تھا۔ اس تقریب کی دونوں ملکوں نے اجازت دے دی تھی، اور اس کی سرپرستی مشترکہ طور پر یورپی پارلیمان کے رکن اَوٹو فن ہابسبُرگ اور ہنگری کے اصلاحات پسند کمیونسٹ وزیر اِمرے پَوشگے کر رہے تھے۔

آہنی پردے میں پہلا سوراخ

اس پکنک میں غیر متوقع طور پر پندرہ ہزار افراد نے حصہ لیا، اور مشرقی جرمنی کے سینکڑوں شہری اس موقع سے فائدہ اٹھا کر آسٹریا میں پناہ گزین ہو گئے۔ اسی دوران ہنگری کے سرحدی محافظین کو GDR کے پناہ گزیوں کو گولی مار دینے کا سرکاری حکم بھی دے دیا گیا تھا مگر انہوں نے گولی نہ چلائی۔ یوں آزادی کے خواہش مند مشرقی جرمن باشندے آہنی پردے میں پہلا سوراخ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

اسی طرح کے حالات کو اس دور کے آسٹرین وزیر خارجہ آلوآ مَوک نے بعد ازاں اپنی سفارتی اور سیاسی زندگی کا سب سے خوبصورت لمحہ قرار دیا تھا۔

Flash-Galerie Deutschland 60 Jahre Kapitel 4 1979 – 1989 Die Mauer fällt
نومبر1989 میں گرائے جانے سے پہلے دیوار برلن پر چڑھے بہت سے مشرقی جرمن شہریتصویر: picture-alliance/ dpa/dpaweb

دیوار برلن کا خاتمہ

19 اگست 1989 کے واقعات کے بعد اسی سال ستمبر کی دس تاریخ، یعنی ٹھیک تین ہفتہ بعد تک حالات اتنے بدل چکے تھے کہ جیسے بند ٹوٹ گیا ہو۔ ہنگری نے اپنے ہاں موجود تمام مشرقی جرمن شہریوں کو مغربی یورپ کے سفر کی باقاعدہ اجازت دے دی۔ پھر شوپرَون کے پورے کمیونسٹ بلاک کو ہلا کر رکھ دینے والے واقعات کے بعد نومبر 1989میں دیوار برلن بھی گرا دی گئی اور مشرقی یورپ میں کمیونسٹ نظام حکومت کے خاتمے کے آثار بھی واضح ہونے لگے۔

ہیلموٹ کوہل کا تاریخی بیان

ہنگری اور آسٹریا کی مشترکہ سرحد پر 1989 کے موسم گرما میں پیش آنے والے تاریخ ساز واقعات کے پس منظر میں بعد ازاں وفاقی جرمنی کے چانسلر آف یونٹی کہلانے والے سربراہ حکومت ہیلموٹ کوہل نے کہا تھا: "ہنگری کی حکومت کے اس بلند حوصلہ فیصلے کے بغیر، جس میں اس نے ہمارے جرمن ہم وطنوں کو وہاں سے گزرنے کی اجازت دی، مشرقی جرمنی میں نظر آنے والی ڈرامائی تبدیلیاں اور اصلاحات کا عمل ممکن نہ ہوتے۔ کم ازکم اتنی تیز رفتاری سے نہیں۔ تب دیوار برلن کی پہلی اینٹ ہنگری نے گرائی تھی۔"

Helmut Kohl vor EU Flagge 1998
جرمنی کے چانسلر آف یونٹی کہلانے والے سابقہ سربراہ حکومت ہیلموٹ کوہلتصویر: AP

ریکارڈ عرصے تک وفاقی جمہوریہ جرمنی کے چانسلر کے عہدے پر فائز رہنے والے قدامت پسند سیاستدان ہیلموٹ کوہل نے یہ بات چار اکتوبر 1990 کے دن کہی تھی، دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کے ایک روز بعد۔ آسٹریا اور ہنگری میں ٫پین یورپین پکنک‘ کے تین ماہ سے بھی کم عرصے بعد 9 نومبر 1989 کو دیوار برلن کے گرائے جانے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔

اوپن ایئر عجائب گھر

ہنگری اور آسٹریا کی سرحد پر، جہاں سے شروع ہونے والے تاریخی واقعات کا سلسلہ سرد جنگ اور سوویت یونین کے خاتمے تک جاتا ہے، آج وہاں سینٹ مارگریٹین کے نواح میں ایک ایسا اوپن ایئر عجائب گھر قائم ہے جودو عشرے پہلے کے تاریخی واقعات کی یاد دلاتا ہے اور جسے دیکھنے کے لئے ہزارہا یورپی باشندے ہر سال وہاں جاتے ہیں۔

جس جگہ یہ اوپن ایئر عجائب گھر قائم ہے، وہاں ایک بڑے میدان میں جگہ جگہ بہت سے یادگاری کتبے لگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پیویلین بھی ہے، اور ایک چھوٹا سا مینار بھی جس پر ایک گھڑیال لگا ہوا ہے۔ وہاں جانے والے مہمان لوہے کی اس خاردار تار کا ایک حصہ بھی دیکھ سکتے ہیں جو کبھی ہنگری اور آسٹریا کی باہمی سرحد کی پہچان تھی۔ تاہم یہ کوئی نہیں جانتا کہ مشرقی اور مغربی یورپ کے درمیان اس سرحد پر لگا لکڑی کا وہ دروازہ کہاں گیا جسے ٫پین یورپین پکنک‘ کے دوران علامتی طور پر چند گھنٹے کے لئے کھولا گیا تھا۔

تاریخی پیش رفت کا احساس

اس پکنک کے مرکزی منتظمین میں سے ایک لآسلو مُوگَوش بھی ہیں جو آج کے ہنگری میں ایک پینشنر کی زندگی گزار رہے ہیں، مگر جنہیں 19 اگست 1989 کےتمام واقعات آج بھی اچھی طرح یاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں: "ہمیں ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی بوتل میں سے کوئی جن باہر نکل آیا ہو۔ اسے خوش قسمتی بھی کہا جا سکتا ہے اور ایک بڑے ہجوم کی تاریخی نوعیت کی زبردستی بھی، کہ اتنے زیادہ مشرقی جرمن شہری اس طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ تب ہمیں یہ دھمکیاں بھی دی گئی تھیں کہ ہمارے خلاف مقدمے درج کرائے جائیں گے اور ہمیں اپنی سرگرمیوں کے لئے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ لیکن میں نے اگلے ہی دن یہ محسوس کرلیا تھا کہ ہم نے بہت بڑا کام کیا ہے۔ میرے ایک دوست نے تو مجھے واضح طور پر کہا کہ ہم نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔"

Pan-Europäisches Picknick in Ungarn
ہنگری اور آسٹریا کی باہمی سرحدکھولے جانے کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر جرمن چانسلر میرکل نےخاص طور پر اس تاریخی جگہ کا دورہ کیاتصویر: AP

گولی نہ چلانے کا فیصلہ

٫پین یورپین پکنک‘ والے دن ہنگری کی فوج کے جو پانچ اہلکار سرحدی دروازے کی نگرانی پر مامور تھے، ان میں سے ایک آرپات بَیلو نامی لیفٹیننٹ کرنل بھی تھے جن کی عمر اس وقت 43 برس تھی۔ آج ان کی عمر 63 برس ہے اور انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ انتہائی فیصلہ کن لمحے میں انہوں نے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والے مشرقی جرمن باشندوں پر اگر گولی نہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا، تو اس فیصلے کی وجہ کیا تھی۔

آرپات بَیلو کہتے ہیں: "سرحد پر کھڑے ہوئے، ہنگری کی طرف سے بہت سے لوگوں نے میری طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ میں نے سوچا کوئی سرکاری وفد ہوگا۔ جب یہ لوگ کافی قریب پہنچ گئے تو مجھ احساس ہوا کہ وہ ایسے سینکڑوں مشرقی جرمن باشندے تھے جو سرحد پار کرنا چاہتے تھے۔ میرے پاس اس فیصلے کے لئے قریب تیس سیکنڈ کا وقت تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ انہیں روک لوں یا جانے دوں۔ سرکاری احکامات بہت واضح تھے۔ ایسے کسی بھی واقعے میں لوگوں کو روکنے کے لئے مجھے پہلے ہوائی فائرنگ کرنا تھی۔ جذبات میں بپھرے ہوئے، اتنے زیادہ انسانوں پر ہتھیار تان لینے کا نتیجہ یہ نکلتا کہ شاید وہ مجھ پر حملہ کر دیتے۔ تب قانون کے مطابق مجھے ان پر گولی چلانا تھی۔ کیا مجھے کسی خونریزی کا خطرہ لینا چاہیے؟ اگر میں ان کو جانے دیتا ہوں تو اس کا ذمہ دار مجھے ٹھہرایا جائے گا۔ میں نے چند لمحوں کے لئے سوچا اور پھر اس ہجوم پر گولی نہ چلانے کا فیصلہ کر لیا۔"

تحریر: مقبول ملک

ادارت: عدنان اسحاق