’ہر دہشت گرد نفسیاتی مریض نہیں ہوتا‘
12 مئی 2016ماہرین کے مطابق نفسیاتی مسائل اور تنہائی کے شکار افراد کا فائدہ دہشت گرد تنظیمیں بھی اٹھاتی ہیں۔ یہ تنظیمیں ایسے لوگوں سے ملاقات کرتی ہیں، ان سے رابطے بڑھائے جاتے ہیں اور انہیں دوست بنا کر اپنے جال میں پھنسانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ رابطہ غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ دہشت گردی یا جہادی نظریات کی بنیاد لوگوں کی حق تلفی اور ان کے خلاف ہونے والی ظلم و زیادتی کے مفروضوں کو اجاگر کرنے پر رکھی جاتی ہے اور ایسی سوچ کسی ایسے فرد میں بھی پائی جا سکتی ہے، جو شدید ذہنی امراض کا شکا ہوں۔
ماہر نفسیات ڈینیئل زاگوری کہتے ہیں، ’’جب بھی معاشرے میں ارتقاء ہوتا ہے، وہمی اور خبطی لوگوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ وہمی رویہ ہمیشہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے۔‘‘
ڈینیئل زاگوری کئی مبینہ دہشت گردوں اور جہادیوں کا ذہنی علاج کر چکے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں،’’ کئی لوگ پرسرار قسم کے وہم کا شکار ہو تے ہیں اور اس قسم کی خام خیالی بہت ہی خطرناک ہوتی ہے۔ اور ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ خدا ہمارے ساتھ ہی تو سب آسان ہے۔‘‘ ان کے بقول آج کل اللہ اکبر کا نعرہ ایک طرح سے کسی بھی حملہ آور کو نجات کا احساس دیتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اسی لیے اکثر شدت پسند اپنی کاریں پیدل چلنے والوں پر چڑھانے یا عام افراد کو چاقو مارنے یا اسی طرح کی کسی اور شدت پسندانہ کارروائی سے قبل یہ نعرہ بلند کرتے ہیں۔
ڈینیئل زاگوری مزید کہتے ہیں کہ تمام دہشت گردوں کو نفسیاتی مریض قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کے بقول صرف دس فیصد اس طرح کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ اس فہرست میں خود کو گناہ گار سمجھنے والے، منشیات کے عادی اور دیگر جرائم پیشہ گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہوتے ہیں، جو شدت پسندانہ اسلام کے ذریعے اپنے اعمال کو درست کرنا چاہتے ہیں۔