1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’گھوڑا کھیرے کا سلاد نہیں کھاتا‘ ، ٹیلیفون کی 150 ویں سالگرہ

26 اکتوبر 2011

’گھوڑا کھیرے کا سلاد نہیں کھاتا‘ یوہان فیلپ رِائز نے آج سے 150 برس قبل اپنے بنائے ہوئے ٹیلیفون پر جب یہ پیغام بھیجا تو اس جرمن سائنسدان کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ الفاظ رابطہ کاری کے میدان میں ایک انقلاب کے مساوی ہیں۔

https://p.dw.com/p/12zEh
تصویر: picture-alliance/dpa

یوہان فیل رائز نے اپنی اس ایجاد کو اپنے ایک لیکچر میں پیش کیا جس کا عنوان تھا، ’’گیلوانک بجلی کے ذریعے آوازوں کو کسی بھی فاصلے تک لے جانے کے بارے میں‘‘۔ رائز نے یہ لیکچر 26 اکتوبر 1861ء کو فرینکفرٹ کی فزیکل سوسائٹی میں پیش کیا۔

27 سالہ جرمن سائنسدان رائز نے اپنے پیغام میں گھوڑے اور سلاد کے بارے میں یہ جملہ جان بوجھ کر استعمال کیا، تاکہ پیغام سننے والا بولے گئے جملے کے ہر ایک لفظ کوسنے بغیر محض اندازے کے ذریعے اسے نہ سمجھ سکے۔ یوہان فیلپ رائز نے اس آواز کو سننے کے لیے لکڑی کا ایک ’مصنوعی کان‘ بنایا جس میں ساسیج کے ایک خول پر پلاٹینم کی مہین پٹیاں لگا کر ایئرڈرم بنایا گیا تھا۔

Flash-Galerie 150 Jahre Telefon
1870ء کی دہائی میں امریکی سائنسدان الیگزینڈر گراہم بیل نے پہلا تجارتی ٹیلفون پیش کیاتصویر: Museum für Kommunikation Berlin

گوکہ رائز کی اس ایجاد کو محدود پیمانے پر تو پزیرائی ملی، مگر وہ اس سے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ کر پایا۔ اس کا بنایا ہوا فون صرف آواز بھیج سکتا تھا، لہذا دوسری طرف موجود فرد فوری طور پر اس کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔ اس سے قبل کے فیلپ رائز اپنی اس ایجاد کو مزید بہتر بنا پاتا، جنوری 1874ء کو تپ دق کے باعث اس کا 40 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔

تاہم ٹیلفون کے حوالے سے اصل انقلاب اس وقت شروع ہوا جب 1870ء کی دہائی کے آخر میں امریکی سائنسدان الیگزینڈر گراہم بیل نے اپنا پہلا تجارتی ٹیلفون پیش کیا۔ اس کے ذریعے فون کرنے کے لیے آپ فون کے دو اجزاء کو کان اور منہ سے لگانا پڑتا تھا۔

رپورٹ: افسر اعوان

ادارت: عدنان اسحاق