1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گھریلو تشدد پر سزاؤں میں نرمی، روسی خواتین پریشان

عابد حسین
4 فروری 2017

روس میں گھریلو تشدد پر دی جانے والی سزاؤں میں نرمی کا قانون جلد ہی نافذ ہونے والا ہے۔ پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد اب اِس کے نفاذ میں صدر ولادیمیر پوٹن کی جانب سے توثیق ہونا باقی رہ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2WyAo
Symbolbild Häusliche Gewalt
تصویر: picture-alliance/dpa

روسی پارلیمنٹ نے اُس مسودہٴ قرارداد کی منظوری دے کر قانون بنا دیا ہے، جس نے گھروں میں خواتین پر کیے جانے والے تشدد میں دی جانے والی سزاؤں میں نرمی پیدا کر دی ہے۔ اس قانون کی منظوری کے لیے روسی پارلیمنٹ دوما نے خاصی سبک رفتاری سے عمل کیا تھا۔ روس کے انسانی حقوق کے کارکنوں کا خیال ہے کہ بل کی منظوری کے لیے جو رفتار پارلیمنٹ نے اپنائی تھی وہ حیران کن اور معنی خیز ہے۔ اب اس کے نفاذ کے لیے صدر پوٹن کی توثیق رہ گئی ہے۔

Marokko Plakat gegen Vergewaltigung in der Ehe
اس قانونی پیش رفت پر حقوق کے کارکن اور گھریلو تشدد کے متاثرین نے صدائے احتجاج بلند کرنا شروع کر تو دی ہےتصویر: DW/A. Boukhems

گھریلو تشدد کی شکار ایک نوجوان چھبیس سالہ روسی خاتون الیگزانڈرا گلیبوف نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس قانون سے خواتین میں پیدا ہونے والی پریشانی کا احساس کر سکتی ہیں کیونکہ وہ اپنے والد کے ہاتھوں نفسیاتی اور جسمانی اذیت کا شکار رہی ہے۔ گلیبوف کے مطابق اُس کا والد ہمیشہ اُس کے سر پر مکے سے ضرب لگایا کرتا تھا اور اُس تشدد کے بعد وہ گھنٹوں بے حال رہتی تھی۔ وہ کئی برسوں اپنے باپ سے پٹتی رہی لیکن پولیس کو رپورٹ نہیں کر پائی تھی۔

الیگزانڈرا گلیبوف اپنے والد سے مکمل قطع تعلقی اختیار کرنے کے بعد اب اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ماسکو میں رہائش پذیر ہے لیکن اُس کو اب بھی ڈیپریشن لاحق ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ موجود قانون نے اُسے مجبور کر دیا کہ وہ گھریلو تشدد کے لیے پہلے سے موجود سزاؤں میں نرمی کے قانون کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کا حصہ بنے۔

 اعداد و شمار کے مطابق روس میں ہر پانچویں خاتون کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے۔ سن 2015 میں گھریلو تشدد کی وجہ سے 7500 خواتین کی موت واقع ہوئی تھی۔ روس میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جو کسی کو مارتا ہے، وہ اُس سے پیار و محبت بھی شدت سے کرتا ہے۔ ایک تازہ ترین رائے عامہ کے جائزے میں انسٹھ فیصد لوگ ہلکے پھلکے تشدد کو قبول کرتے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ اس قانون کی منظوری کے پسِ پردہ کریملن کے قدامت پسند اراکین پارلیمنٹ کا ہاتھ ہے۔ اس کا مسودہ بھی قدامت پسندوں نے تیار کر کے پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا۔ نئے بل کو پیش کرنے والے اراکین کا موقف ہے کہ خاندانی معاملات میں ہلکے پھلے تشدد کے تناظر میں پہلے سے موجود سخت قوانین خاندانی امور میں غیر ضروری مداخلت کے مساوی تھے۔

اس قانونی پیش رفت پر انسانی حقوق کے کارکن اور گھریلو تشدد کے متاثرین نے صدائے احتجاج بلند کرنا شروع کر تو دی ہے لیکن ان آوازوں کا اثر پارلیمنٹ کے اراکین پر دکھائی نہیں دیا اور یہ لوگ  صدر پوٹن کی بصیرت پر تکیہ کیے ہوئے ہیں کہ وہ امکاناً اِس بل کی توثیق سے گریز کریں لیکن کئی کا خیال ہے کہ ایسا مشکل ہی دکھائی دیتا ہے کہ وہ پارلیمانی قانون کی توثیق کے راستے میں کھڑے ہوں۔