’گيتا تو گھر چلی گئی، ميرا بيٹا بھی لوٹا دو‘
31 اکتوبر 2015سن 2008 سے لاپتہ پندرہ سالہ رمضان کا قريب چھ ہفتے قبل اپنی ماں سے رابطہ اُس وقت ہوا، جب اُس کی ماں نے انٹرنيٹ پر اُس کی تصوير ديکھی اور کہانی پڑھی۔ رضيہ بيگم نے نيوز ايجنسی اے ايف سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’ميں الفاظ ميں بيان نہيں کر سکتی کہ جب ميں نے اپنے بيٹے کے بارے ميں سنا، تو ايک ماں ہونے کے ناطے ميرے جذبات کيا تھے۔‘‘ رضيہ بيگم کے مطابق بيٹے سے جدا ہوئے اتنے برس بيت گئے ہيں اور اب بس وہ يہی چاہتی ہيں کہ وہ گھر واپس آ جائے اور بقیہ زندگی اُن کے ساتھ بسر کرے۔
رمضان کے والدين ميں 2004ء ميں طلاق ہو گئی تھی۔ اُس کے والد اُسے 2008ء ميں اُس کی ماں کو اطلاع ديے بغير بنگلہ ديش لے گئے تھے۔ رمضان کا دعویٰ ہے کہ اُس کا باپ اُسے مارتا پيٹتا تھا اور اسی ليے وہ بھاگ گيا۔ بنگلہ ديش سے وہ غير دانستہ طور پر سرحد پار کر کے بھارت چلا گيا، جہاں کافی عرصے تک وہ سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا۔ رمضان مزاروں، مندروں اور ريلوے اسٹيشنوں پر کھايا پيا کرتا تھا۔ پھر دو برس قبل بھارتی رياست مدھيہ پرديش کے شہر بھوپال ميں چائلڈ لائن نامی ايک امدادی تنظيم نے اُسے اپنی آغوش ميں لے ليا اور تب سے يہ تنظيم ہی اُس کی ديکھ بھال کر رہی ہے۔
چائلڈ لائن کی ڈائريکٹر ارچنا ساحے نے نيوز ايجنسی اے ايف پی سے بات چيت کرتے ہوئے بتايا کہ رمضان اب باقاعدگی سے اپنی والدہ سے بذريعہ ٹيلی فون بات چيت کرتا ہے اور ان دونوں کے بيچ ميں ذاتی ويڈيوز اور تصاوير کا تبادلہ بھی ہو چکا ہے۔ ساحے کے بقول رمضان کی شناخت کے حوالے سے اب کسی شک و شبے کی گنجائش نہيں۔ چائلڈ لائن کی ڈائريکٹر کے مطابق نئی دہلی حکومت نے اُنہيں مطلع کيا ہے کہ رمضان کی وطن واپسی کے سلسلے ميں وہ اسلام آباد حکومت کی جانب سے باضابطہ درخواست کی منتظر ہے۔
پاکستان ميں سرگرم انسانی حقوق سے منسلک تنظيم انصار برنی ٹرسٹ نے حکومت سے رمضان کی وطن واپسی کے سلسلے ميں مدد مانگی ہے۔ يہ بات اِس ادارے کی ڈائريکٹر شگفتہ برنی نے اے ايف پی کو بتائی۔ برنی کا کہنا ہے کہ صرف سرحد ہی تو بيچ ميں ہے، اتنی رعايت ہونی چاہيے کہ ايک بچہ اپنی ماں سے مل سکے۔
بھوپال سے بات کرتے ہوئے رمضان کا کہنا ہے کہ جب بھی وہ اپنی ماں سے بات کرتا ہے، دونوں بے اختیار رونے لگتے ہيں۔ اُس کا ماننا ہے کہ جس طرح گيتا کو بھارت بھيج ديا گيا، اُس کو بھی پاکستان بھيج ديا جائے۔
بھارتی لڑکی گيتا نہ تو بول سکتی ہے اور نہ ہی سن سکتی ہے۔ وہ تقريباً دس برس قبل سرحد پار کر کے غير دانستہ طور پر پاکستان ميں داخل ہوئی تھی۔ بعد ازاں پاکستانی شہر لاہور ميں وہ پوليس کو ملی تھی۔ گيتا کو اب بيس سے زائد برس کی ہونے کے بعد گزشتہ پير کے روز نئی دہلی روانہ کر ديا گيا۔ گيتا کے کيس کو ذرائع ابلاغ ميں توجہ معروف بھارتی فلم ’بجرنگی بھائی جان‘ کی ريليز کے بعد اگست ميں ملی۔ بھارتی فلمی ستاروں سلمان خان اور کرينہ کپور کی اس فلم ميں ايک پاکستانی بچی کی کہانی بيان کی گئی ہے، جو بھارت ميں کھو گئی تھی اور پھر سلمان خان نے اُسے پاکستان ميں اُس کے گھر تک پہنچايا۔ اس فلم کو دونوں ممالک ميں کافی شہرت ملی تھی۔
رمضان کی والدہ رضيہ بيگم نے بتايا کہ بجرنگی بھائی جان کے ہدايت کار کبير خان نے رمضان سے رابطہ کر کے پوچھا ہے کہ آيا وہ سلمان خان سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ رمضان نے اُنہيں جواب میں صرف اتنا کہا کہ وہ اپنی ماں سے ملنے کے لیے بےچین ہے۔ رمضان کا مزید کہنا ہے کہ اگر سلمان خان اِس سلسلے ميں اُس کی مدد کر سکيں، تو وہ اُن کا انتہائی شکر گزار ہو گا۔