گوری رنگت کی خواہش، جنوبی ایشیا میں ایک عام سوچ
20 ستمبر 2009بھارت اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا بھر میں گوری رنگت کو فخر کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔ روزانہ ہی ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر درجنوں ایسے اشتیہارات نظر سے گزرت ہیں جن میں یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ گوری رنگت خوبصورتی کی سب سے بڑی علامت ہے اور اس کریم یا لوشن کا استعمال آپ کو بے حد گورا بنا دے گا۔ معاملہ نوکری کا ہو یا شادی کا، ہر جگہ گوری رنگت کو واضح طور پر اہم خیال کیا جاتا ہے۔
بھارتی شہری سیمی سنگھ ان لاکھوں افراد میں سے ایک ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کہ رنگت جتنی گوری ہو گی اور اتنے ہی زیادہ خوبصورت خیال کئے جائیں گے۔ سیمی سنگھ کے مطابق انہیں ان کی والدہ نے بچپن ہی سے دھوپ میں گھر سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی تاکہ ان کی رنگت گہری نہ ہو جائے تاہم انہوں نے عموما اپنی والدہ کی بات نہیں مانی۔ اب پچیس سالہ سیمی اپنی گہری سانولی رنگت سے پریشان دکھائی دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک مہنگی فیئرنس کریم کا استعمال باقائدگی سے کرتی ہیں تاکہ اپنی رنگت کو ’’قابل توجہ‘‘ بنا سکیں۔ سیمی کے خیال میں فیئرنس کریم ان کی رنگت کو آہستہ آہستہ بہتر کر رہی ہے۔
’’میری عمر اب شادی کی ہے اور مجھے خوبصورت دکھائی دینا ہے۔ ہمارے بھارتی معاشرے میں صرف وہی لڑکی خوبصورت تصور کی جاتی ہے، جس کی رنگت صاف ہو۔ میں اپنی رنگت سے تھوڑی سے غیر مطمئن ہوں۔ مجھے اور بہتر تعریفی کلمات سننے کو ملیں گے اگر میری رنگت گوری ہو جائے۔ مجھے اور بہت سے لوگ قابل رشک انداز سے دیکھیں گے۔ اس سے میری خوداعتمادی میں اضافہ ہو گا۔‘‘
یہ سوچ صرف سیمی سنگھ ہی کی نہیں بلکہ لاکھوں دیگر لڑکیاں بھی اسی خیال کو حقیقت سمجھتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ فلموں، ٹیلی ویژن اور میڈیا کے دیگر شعبوں میں گوری رنگت کو خوبصورت سے منسوب کرنے کے حوالے سے مسلسل قابل تقلید مہم ہے، جو ایک مدت سے چلائی جا رہی ہے۔
نئے نئے صابن، کریمیں ، لوشن، ٹیلکم پاؤڈر اور نہ جانے کیا کیا ایسا ہے جو ایک عام شخص کو رفتہ رفتہ یہ سوچنے پر مجبور کرتا چلا جاتا ہے کہ شاید اس کی رنگت میں کچھ خرابی ہے جسے دور کرنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ معروف اخبارات تک میں جہاں کہیں بھی خوبصورتی کی بات ہو وہاں گوری رنگت کا سابقہ یا لاحقہ ضرور نظر سے گزرتا ہے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : عدنان اسحاق