1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوانتانامو میں بند قیدیوں کے حقوق کا متنازعہ معاملہ

11 جولائی 2008

گوانتانامو ميں تقريباً دو سو ستّر قيدی اب بھی بند ہيں۔ ان ميں سے بہت سے اب سول عدالتوں ميں اپنی گرفتاری کے خلاف اپيليں دائر کر رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/Eadm
گوانتانامو میں بند ایک قیدی نے شناخت چھپانے کی غرض سے اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ رکھے ہوئے ہیںتصویر: AP

امريکہ کی سپريم کورٹ کے ایک اہم فيصلے کے بعد ایک دائر کردہ اپيل کا فيصلہ سنايا بھی جا چکا ہےاور ﺍس کے مطابق ملزم کے خلاف شواہد ﺍس قدر نا کافی تھے کہ اس کی گرفتاری کا کوئی جواز ہی پيدا نہيں ہو تا ہے۔

USA Kuba Guantanamo Oberster Gerichtshof
امریکی سپریم کورٹ نے ابھی جون میں یہ فیصلہ دیا کہ گوانتانامو بے میں بند قیدیوں کو اپنی گرفتاری کے خلاف امریکی سول عدالتوں میں اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہےتصویر: AP

بش حکومت يمن سے مذاکرات کر رہی ہے اور ا س نے وزارت دفاع ميں وکيلوں ميں اضافہ کر ديا ہے۔ وہ ﺍس مشکل سے نکلنے کی راہ ڈھونڈ رہی ہے۔

حکومتی ترجمان Dana Perino نے بش حکومت کے بھيانک خواب کو ﺍن الفاظ ميں بيان کيا: 'مجھے يقين ہے کہ يہ کوئی بھی نہيں چاہے گا کہ خالد شيخ پڑوس ميں آزاد پھر رہا ہو'۔

امریکی صدر کی ترجمان نے ايک خوفناک منظرکشی کی ہے۔ يعنی خود دہشت گردی کی منصوبہ بندی کا اعتراف کرنے والا خالد شيخ امريکہ ميں ايک ازاد شخص کی حيثيت سے۔ ايسا ہو نہيں سکتا کيونکہ خا لد شيخ نے اقبال جرم کر ليا ہے۔ ليکن امريکی حکومت نے خطرے کی گھنٹی بجانا شروع کر دی ہے کيونکہ اسے يہ خدشہ ہے کہ امريکی سول عدالتيں ثبوت ناکافی ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے مشتبہ افراد کو گوانتانامو کی جيل سے رہا کرنا شروع کر دے گی اور پھر وہ امريکہ کی سرزمين پر آزاد پھر رہے ہوں گے۔

Chalid Scheich Mohammed Terrorist Guantanamo
گیارہ ستمبر کے حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد بھی گوانتانامو میں قید ہیںتصویر: AP

گوانتانامو ميں تقریباً دو سو ستر افراد کو قيد رکھا گيا۔ ان ميں سے جن پر واقعی جرم کا الزام لگايا گيا ان کے نام انگليوں پر گنے جا سکتے ہيں۔ لنکن وائٹ ہاوٴس ميں اسے دوسری نظر سے ديکھا جاتاہے۔گوانتانامو کے اسّی قيديوں پر فوجی عدالت ميں مقدمہ چلايا جاناچاہئے۔ پينسٹھ کو ان کے ملکوں ميں واپس بھيج ديا جائے گا۔ تقريبا ايک سو بيس باقی بچيں گے جنھيں امريکی حکومت انتہائی خطرناک سمجھتی ہے ليکن ان کے خلاف اس کے پاس کافی ثبوت معلوم نہيں ہو تے۔

حکومتی ترجمان Dana Perino نے کہا کے اب تک کے تجربے سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ بش حکومت کے تفکرات بے بنياد نہيں ہيں: 'بعض قيديوں کو رہا کر ديا گيا۔ ا ن میں سے کچھ ميدان جنگ ميں واپس پہنچ چکے ہيں۔ بعض خودکش حملہ آور بن چکے ہیں۔ اس لئے قيدنوں کے بارے ميں فيصلہ کرتے وقت بہت احتياط کی ضرورت ہے۔'

يہ بات متنازعہ ہے۔ حقوق انسانی کے حاميوں اور قيديوں کے وکلاء کا کہناہےکہ بش حکومت جان بوجھ کر اعدادوشمار میں مبالغہ آرائی کر رہی ہے۔ وہ خوف پيدا کرنا چاہتی ہے۔ قانونی امور کے ماہر Charles Simpson نے کہا کے اس کے لئے نئے قانون کی ضرورت ہے ليکن امريکہ ميں انتخاباتی مہم جاری ہے۔ سينيٹ اور کانگريس ميں اکثريت والے ڈيموکريٹ چاہتے ہيں کہ بش اپنی پاليسی کا خميازہ اب خود ہی بھگتيں۔