گنی بساؤ کے صدر کا قتل
2 مارچ 2009افریقی و یورپی یونین سمیت عالمی برادری نے دونوں رہنماؤں کے قتل کی مذمت کی ہے۔عالمی طاقتوں نے گنی بساؤ میں سیاسی رہنماؤں اور فوج پر زور دیا ہے کہ قانون کا احترام کریں اور آئین معطل نہ کیا جائے۔
گنی بساؤ کے صدر یوآؤ وی آئی را کے قتل کو انتقامی کارروائی قراردیا جا رہا ہے۔ فوجی ترجمان زامورا اندوتا نے صحافیوں کو بتایا کہ چیف آف اسٹاف جنرل تاگمے کے حامی سپاہیوں نے پیر کی صبح صدرکی رہائش گاہ پرحملہ کردیا۔ اس دوران فرارکی کوشش میں صدر وی آئی را مارے گئے۔
فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ فوج کے سربراہ کی ہلاکت کی ذمہ داری صدر پرعائد ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ اس افریقی ریاست میں صدراورفوجی سربراہ کے مابین تعلقات اچھے نہیں تھے۔
دوسری جانب فوج، فضائیہ اوربحریہ کے اعلیٰ عہدے داروں کے وزیراعظم کارلوس گومیزجونئیرکے ساتھ مذاکرات ہوئے ہیں جس کے بعد فوج نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ گنی بساؤ میں فوج کو اقتدارمیں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فوج نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ملک میں جمہوری اورآئینی اداروں کوبحال رکھا جائے گا۔
گنی بساؤ کی تازہ صورت حال پرافریقی یونین کا ہنگامی اجلاس بھی کل منگل کو ہو رہا ہے۔ اس افریقی ریاست میں اقتدارکے موجودہ خلا کے باعث فی الحال پارلیمانی اسپیکرصدرکی جگہ لیں گے اوردو ماہ میں صدارتی انتخابات کرائے جائیں گے۔
مغربی افریقہ کی اکنامک کمیونٹی کے سربراہ محمد ابن شامباس نے گنی بساؤ میں صدراورفوج کے سربراہ کے قتل کو جمہوریت کا قتل قراردیا ہے۔
تازہ ترین واقعات سے قبل باغی فوجیوں نے گزشتہ برس نومبر میں بھی حکومت کا تختہ الٹے کے لئے صدارتی محل پرحملہ کر دیا تھا جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔
گنی بساؤ کا شمارغریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ وہاں ماضی میں فوج منتخب حکومتوں کا تختہ الٹتی رہی ہے۔ یہ افریقی ملک لاطینی امریکہ سے یورپ کو منشیات کی اسمگلنگ کا آسان راستہ بھی بن چکا ہے۔ اس نے 1974 میں پرتگال سے آزادی حاصل کی تھی اور تب سے ہی فوجی حکومتوں اورسیاسی بحرانوں کا شکاررہا ہے۔