1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گروپ G20 کے اجلاس میں حیرتیں اور مایوسیاں

28 جون 2010

کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں صنعتی ملکوں کے ذمے واجب الادا قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کے عزم کے اظہار کے ساتھ دُنیا کے بیس سرکردہ ترین ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کی سربراہ کانفرنس اتوار 27 جون کو اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔

https://p.dw.com/p/O53L
تصویر: AP

اِن رہنماؤں کے درمیان مالیاتی منڈیوں میں اصلاحات متعارف کروانے کے معاملے میں بات آگے نہ بڑھ سکی اور یہ معاملہ آئندہ سربراہ کانفرنس پر اٹھا رکھا گیا ہے، جو اِس سال نومبر میں جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں منعقد ہو گی۔ اِس اجتماع میں غریب ملکوں کا ذکر نہ ہونے کے برابر تھا۔ ٹورانٹو سے ڈوئچے ویلے کے ہینرِیک بوہمے اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں:

’’ایک ارب ڈالر کی رقم کے ساتھ بہت کچھ کیا جا سکتا ہے: مثلاً 50 ملین انسانوں کی صاف پانی تک رسائی ممکن بنائی جا سکتی ہے یا پھر 8 لاکھ نومولود بچوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ لیکن اِسی رقم کی مدد سے ایک عظیم الشان سربراہ کانفرنس بھی منعقد کی جا سکتی ہے۔ اور یہی کچھ گزشتہ اختتامِ ہفتہ پر کینیڈا میں ہوا بھی، جہاں پہلے دُنیا کے آٹھ سب سے بڑے صنعتی ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات ہوئی اور پھر دُنیا کی بیس اہم ترین صنعتی اَقوام کے رہنما آپس میں مل بیٹھے۔ جتنا پیسہ اس اجتماع پر خرچ کیا گیا، اُس کی مناسبت سے اِس اجتماع کے نتائج خاصے مایوس کُن رہے۔

G20 Gipfeltreffen in Toronto
اتوار کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل روسی صدر دمتری میدویدیف اور فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی کے ہمراہ ٹورانٹو میںتصویر: AP

سٹے بازوں کی سرگرمیوں کے آگے بند باندھنا

اِسی بات کو ذرا مختلف طریقے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے: اُس پیسے کے مقابلے میں، جو بینکوں اور پوری پوری ریاستوں کو بچانے کے لئے اب تک صَرف کیا گیا ہے، ایک ارب ڈالر کی رقم تھوڑی ہے۔ اِس میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ دُنیا کو مالیاتی منڈیوں کے ایک نئے ڈھانچے کی ضرورت ہے لیکن سیاسی شعبہ تشکیلِ نو کے اِس بڑے مرحلے کو عملی شکل کیسے دے گا، اِس سلسلے میں چھوٹی چھوٹی جزیات طے کرنا خاصا دشوار کام ہے۔ مالیاتی شعبے کی لابی نے اپنے نمائندے بڑی تعداد میں روانہ کئے تاکہ اُن کے خلاف عائد کی گئی پابندیاں زیادہ سخت نہ ہوں۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ بینکوں پر اتنی سختی نہیں کی جانی چاہئے کہ وہ سانس بھی نہ لے پائیں۔ کوئی بھی قومی معیشت پیسے کے بغیر نہیں چل سکتی لیکن بینکوں کو اپنے اُس کردار کی طرف لوٹنا ہو گا، جو کبھی شروع میں اُن کا ہوا کرتا تھا: معیشت کے خادم کا، نہ کہ ایسے جواریوں کا، جو ہر قسم کی حدود و قیود پار کر جائیں۔ بینکوں کو دیوالیہ ہونے کی بھی سہولت ہونی چاہئے، نہ کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ پورے کے پورے مالیاتی نظام کو بھی پاتال میں پہنچا دیں۔ نئے مالیاتی ڈھانچے کے منصوبے کا خاکہ سامنے آ چکا ہے، امریکی صدر باراک اوباما نے اِسے بڑے فخر کے ساتھ ٹورانٹو میں پیش کیا۔ واشنگٹن میں کانگریس اِسی ہفتے ایک قانون منظور کر سکتی ہے۔ یورپی اَقوام اِس سے متاثر ہوئیں اور اب اُنہیں بھی اِسی طرح کے خاکے سامنے لانے کے لئے محنت کرنا ہو گی۔

NO FLASH G20 Gipfeltreffen Toronto Kanada Abschluss
اتوار کو اجتماع کے اختتام پر گروپ کے رکن ممالک کے رہنما ہاتھ ہلاتے ہوئےتصویر: AP

لڑائی، جو کہ تھی ہی نہیں

سربراہ کانفرنس سے پہلے بہت گھن گرج سنائی دے رہی تھی: امریکہ بمقابلہ جرمنی، اقتصادی ترقی کے پروگرام بمقابلہ بچتی پالیسیاں۔ آخر میں لیکن بصیرت غالب آ گئی۔ اِس سلسلے میں وضع کیا گیا جراٴت مندانہ کلیہ تھا: ذہین بچتی پالیسیاں اختیار کرتے ہوئے اقتصادی ترقی کا عمل آگے بڑھانا۔ بلاشبہ یہ بات اہم بھی ہے کیونکہ عالمگیر مالیاتی اور اقتصادی بحران کے بعد معاشی پالیسیوں کے حوالے سے بھی ہم ایک نئی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ کوئی ایک تیر بہدف نسخہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ہر ملک میں حالات مختلف ہیں۔ چنانچہ اِس بحث میں نہ تو کوئی فاتح رہا اور نہ ہی کسی کو ناکام کہا جا سکتا ہے اور یہی ٹورانٹو کی حیران کن بات رہی۔

غریبوں کو نہ بھولیں

مالیاتی بحران نے ایجنڈے کے دیگر اہم نکات کو پیچھے دھکیل دیا: مثلاً آب و ہوا کے تحفظ یا پھر غربت اور بھوک کے خاتمے کو۔ اب تو امیر ممالک خود اِس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ غریب ممالک کے سلسلے میں کئے جانے والے اپنے وعدے پورے نہیں کر پا رہے۔ ایسے میں نئے بلند بانگ دعووں کی بجائے سیدھے سادے وعدے کئے جا رہے ہیں مثلاً ٹورانٹو میں ماؤں اور نومولود بچوں کی اموات کی شرح میں کمی کے ایک نئے پروگرام کا اعلان کیا گیا۔ درحقیقت یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ خوشحال ممالک اپنے آپ کو بچانے کے لئے کتنا پیسہ اِدھر اُدھر برباد کر رہے ہیں۔ یہ ٹورانٹو کی سب سے بڑی مایوس کن بات رہی۔

G20 Gipfel Proteste Toronto Obama Flash-Galerie
امریکی صدر باراک اوباما ٹورانٹو میں صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئےتصویر: AP

آزمائش ابھی باقی ہے

ابھی گروپ G20 کے رکن ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے میں کچھ وقت لگے گا۔ ایک وقت آئے گا کہ اِس بحران پر، جو اُنہیں ایک دوسرے کے قریب لے آیا ہے، قابو پا لیا جائے گا۔ پھر لیکن مالیاتی منڈیوں میں اصلاحات کا عمل اِس گروپ میں انتشار کا باعث ثابت ہو سکتا ہے۔ آٹھ کے گروپ G8 کے برعکس G20 کے تمام رکن ممالک کا اَقدار کا تصور ایک جیسا نہیں ہے۔ ایسے میں بہ بات مثبت ہے کہ چین نے نہ صرف اِس اجتماع سے پہلے اپنی کرنسی سے متعلق پالیسیاں نرم کر دیں بلکہ اجتماع کے دوران بھی اُس نے پائیدار اقتصادی ترقی کی وکالت کی۔ تاہم نئے عالمی مالیاتی نظام کے سلسلے میں اہم فیصلے جنوبی کوریا میں مجوزہ اگلے سربراہ اجلاس تک کے لئے مؤخر کر دئے گئے اور یوں G20 کی اصل آزمائش ابھی آنے والی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ابھی بڑے مالیاتی بحران پر قابو پانے میں کافی وقت لگتا نظر آ رہا ہے۔ سیول بتائے گا کہ ٹورانٹو درحقیقت کتنا کامیاب رہا۔‘‘

تبصرہ: ہینریک بوہمے(ٹورانٹو) / امجد علی

ادارت: کشور مصطفےٰ