گاڑی چلانے والی عورتيں سعودی مردوں کے ليے خطرہ کيوں ہے؟
4 اکتوبر 2017
سعودی دارالحکومت رياض ميں ايک نجی ٹيکسی کمپنی سے منسلک ايک شخص نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ايف پی سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’آپ پابندی ہٹا سکتے ہيں ليکن مردوں کو اس پر مجبور نہيں کر سکتے کہ وہ اپنی بہنوں اور بيويوں کو گاڑی چلانے بھيجيں۔‘‘ اس کے بقول اس کے گھر کے فيصلے وہ خود کرتا ہے، گھر کی عورتيں نہيں۔ اس شخص کا موقف ہے کہ گاڑی چلانے کے ليے باہر نکلنے کی وجہ سے اس کی بيوی کا ’غير مردوں‘ سے ’غير ضروری‘ تعلق بڑھے گا۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ’انقلابی‘ حد تک اصلاحات کے باوجود اس ملک ميں اس طرح کے نظريات اور رويے عام ہيں۔ عورتوں کے گاڑی چلانے پر پابندی کے خاتمے کے باوجود سعودی عرب ميں اب بھی عورتوں کا کوئی مرد سرپرست ہونا لازمی ہے، جس کے اجازت کے بغير وہ عورت کئی چيزيں نہيں کر سکتی۔
ايک اور سعودی باشندے نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا ہے، ’’اب زيادہ حادثات کی توقع رکھيے۔‘‘
ابھی پچھلے ہی ہفتے سعودی حکام نے ايک ايسے شخص کو گرفتار کيا، جس نے يہ دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر اس کے سامنے کسی عورت کی گاڑی آئی، تو وہ سخت رد عمل کا مظاہرہ کرے گا۔ اس نے اپنی ايک آن لائن ويڈيو ميں کہا تھا، ’’ميں قسم کھا کر کہتا ہوں، ميں اسے اور اس کی گاڑی کو نذر آتش کر دوں گا۔‘‘
ايسے بيانات اور نظريات کے سبب سعودی عورتيں ان دنوں خوفزدہ ہيں۔ انہيں خدشہ ہے کہ يا تو انہيں ڈرائيونگ لائنس نہيں جاری کيے جائيں گے يا پھر انہيں ٹيسٹ ميں دانستہ طور پر فيل کر ديا جائے گا۔ يہ امر اہم ہے کہ رياض ميں وزارت داخلہ اپنے طور پر اس بات کی يقين دہانی کرا چکی ہے کہ ترميم شدہ قانون پر عمل در آمد کو يقينی بنايا جائے گا۔ رياض حکومت عورتوں کو گاڑی چلانے کی تربيت فراہم کرنے کے ليے عورتوں کا بندوبست کر رہی ہے اور ايسے اسکول بھی تعمير کيے جا رہے ہيں، جہاں تربيت کے ليے صرف عورتيں ہی جا سکيں۔