کیَلے کے مہاجرین کی آبادکاری پر متعدد فرانس میں احتجاج
9 اکتوبر 2016فرانسیسی حکومت کی جانب سے شمالی فرانس میں قائم بدنام مہاجر بستی ’جنگل‘ کو ختم کر کے وہاں موجود مہاجرین کو دیگر مقامات پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ تاہم ان مہاجرین کے نئے مہاجر مراکز کے میزبان علاقوں کے رہائشی اس منصوبے کے خلاف احتجاج میں مصروف ہیں۔
ہفتے کے روز جنوب مشرقی فرانسیسی علاقے پیریفیو میں مقامی میئر کی قیادت میں چند سو افراد نے ریلی نکالی۔ اس علاقے میں ایک بند ہسپتال کی عمارت میں متعدد مہاجرین کو بسانے کے حکومتی منصوبے کے خلاف اس ریلی میں پیرس حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مہاجرین کو اس علاقے میں نہ لایا جائے۔ دوسری جانب بائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے بھی مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کے نعرے کے ساتھ متعدد افراد سڑکوں پر نکلے۔
پولیس کے مطابق یہ ریلیاں مجموعی طور پر پرامن رہیں اور اس احتجاج کے دوران کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی جانب نیشنل فرنٹ کی جانب سے بھی اعلان کیا گیا ہے کہ وہ مہاجرین مخالف مظاہرے منعقد کرے گی۔ اس جماعت کی جانب سے میئرز سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں مہاجرین کے خلاف مظاہرے منعقد کرائیں۔ نیشنل فرنٹ کی رہنما میرین لے پین مہاجرین کی سخت مخالف ہیں اور وہ اگلے برس صدارتی انتخابات کے لیے اسی نعرے کو مرکزی نکتہ بنا کر اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہفتے کے روز پیرس کے جنوب میں مہاجرین مخالف ایک ریلی میں اس جماعت کے متعدد رہنما بھی دیکھے گئے۔ فورگے لے بائیں میں منعقدہ اس ریلی میں قریب دو سو افراد نے مارچ کیا۔ اس علاقے میں کَیلے کی مہاجر بستی سے چالیس افراد کو اس ٹاؤن کے مرکز میں ایک خالی عمارت میں منتقل کیا گیا ہے۔
فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ اس عہد کا اظہار کر چکے ہیں کہ شمالی فرانس میں قائم جنگل نامی مہاجر بستی کو جلد از جلد ختم کرتے ہوئے وہاں موجود قریب نو ہزار مہاجرین کو ملک میں 164 مختلف مقامات پر منتقل کر دیا جائے گا۔
کَیلے کی مہاجر بستی کو فرانس کے لیے ’باعث شرم‘ قرار دیا جاتا ہے اور اسے مہاجرین کے بحران کے حوالے سے مشترکہ یورپی حکمت عملی کی ناکامی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔