1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کینیا میں مفاہمت کے لئے گھانا کے صدر کی کوششیں

8 جنوری 2008

گھانا کے صدرجان کوفور جو اس وقت افریقی یونین کے سربراہ کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں ، بدھ کے روز کینیا کے صدرموائی کیباکی اور ان کے حریف اپوزیشن رہنما رائیلا اوڈنگا سے ملاقاتیں کریں گے۔

https://p.dw.com/p/DYFZ
تصویر: AP

John Kufour کے ایک ترجمان نے کینیا میں انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے تنازعے کے فریقین کو بات چیت کی دعوت دیتے ہوئے منگل کے روز کہا کہ صدرکوفور نے دونوں فریقوں پر واضح کر دیا ہے کہ کینیا میں موجودہ سیاسی صورت حال ایک ایسی بند گلی کی سی ہے جس سے باہر نکلنے کے لئے اطراف کو مذاکرات میں غیر مشروط شمولیت پر آمادگی ظاہرکرنا ہوگی اورتمام آئینی امکانات کو بروئے کار لانا ہوگا۔

کینیا میں حالیہ صدارتی الیکشن کے متنازعہ فاتح اور دوبارہ منتخب ہونے والے صدر Kibaki نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ ان کی اپوزیشن رہنما Odinga کے ساتھ انتخابات کے بعد ہونے والی پہلی ملاقات جمعہ کے روز ہو گی۔ قبل ازیں رائیلا اوڈنگا نے مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف ایک بہت بڑے مجوزہ مظاہرے کو اس لئے ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا تھا کہ بیرون ملک سے کی جانے والی مصالحتی کوششیں متاثر نہ ہوں۔

اس پر امریکی مندوب Jendayi Frazer نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ Kibaki اور Odinga صرف مل جل کر ہی ملکی سیاسی مسائل حل کر سکتے ہیں ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے آئینی اصلاحات لاناہوں گی اور عوامی غم و غصے میں اضافے اور پر تشدد کارروائیوں کا سبب بننے والے محرکات کو دورکرنا ہوگا۔

کینیا میں اب صدارتی انتخابات کے دوبارہ انعقاد کے حق میں اٹھنے والی آوازیں بلند ہوتی جا رہی ہیں۔ بہت سے عوامی حلقے یہ مطالبہ بھی کررہے ہیں کہ یہ نئے الیکشن تین ماہ کے اندر اندرمنعقد کرائے جائیں۔ حالیہ خونریز ہنگاموں کے دوران کینیا کی معیشت کو کس قدر نقصان پہنچا ، اس بارے میں ملکی وزیر خزانہ Amos Kimunya نے خیال ظاہر کیا کہ اس بدامنی سے اس افریقی ریاست کو کم از کم ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔ لیکن انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ چونکہ کینیا کی معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار ہے ، اس لئے معیشی شعبہ جلد ہی دوبارہ سنبھل جائے گا۔

کینیا میں اب تمام بڑے شہروں میں حالات معمول پر آتے جا رہے ہیں ۔ بنک ، دکانیں اور کاروباری مراکز پھر سے کھلنا شروع ہوگئے ہیں اور صنعتی اداروں نے بھی اپنی پیداواردوبارہ شروع کر دی ہے۔ اس بارے میں وزیر خزانہ Kimunya نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ نیروبی میں روزمرہ کی زندگی کے معمولات پھر سے لوٹ آئے ہیں ۔ "مجھے آج پہلی بار ٹریفک کے رش میں پھنس جانے پر خوشی ہوئی ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سڑکوں پر پھر سے گاڑیاں چلنے لگی ہیں اور کام دوبارہ شروع ہو گیا ہے ۔"

ادھرمختلف امدادی تنظیمیں حالیہ ہنگاموں کے بعد محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں اپنے گھروں سے رخصت ہوجانے والے قریب ڈھائی لاکھ شہریوں کی مدد کرسکنے کی پوری کوششیں کررہی ہیں۔ ان متاثرین تک اشیائے خوردونوش پہنچانے اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے بڑی بڑی مال بردار گاڑیاں پناہ گزینوں کے کیمپوں کی طرف رواں دواں ہیں۔