1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا میرکل کی مہاجرین پالیسی ان کی شکست کا سبب بن سکتی ہے؟

شمشیر حیدر Jefferson Chase
24 جولائی 2017

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اپنی مہاجر دوست پالیسیوں کے باعث دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا سامنا تھا، تاہم اب آئندہ انتخابات میں چانسلر کے عہدے کے امیدوار مارٹن شلز بھی ان پر تنقید کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2h3QK
تصویر: picture-alliance/AA/K. Kocalar

انگیلا میرکل آئندہ عام انتخابات میں چوتھی مرتبہ وفاقی چانسلر کے عہدے کی امیدوار ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کے امیدوار مارٹن شُلز کی نامزدگی کے فوراﹰ بعد ان کی مقبولیت نمایاں تھی تاہم اس کے بعد سے میرکل کی مقبولیت میں اضافہ جب کہ شُلز کی مقبولیت میں کمی ہو رہی تھی۔

جرمن الیکشن، میرکل کی مقبولیت میں ’ریکارڈ اضافہ‘

جب کہا جاتا تھا کہ میرکل کامیاب شخصیت نہیں بن سکتیں

کیا تارکین وطن کو جرمنی آتے ہی ملازمت مل جاتی ہے؟

اس صورت حال میں شُلز میرکل کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی مہینوں سے میرکل کی کسی کمزوری کی تلاش میں تھے۔ اتوار کے روز جرمنی کے کثیر الاشاعتی اخبار ’بلڈ‘ کو دیے اپنے ایک انٹرویو میں آخرکار بائیں بازو کے سیاست دان مارٹن شُلز نے دائیں بازو کے میرکل مخالف جرمن حلقوں کی طرح انگیلا میرکل کی مہاجر دوست پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

شُلز نے خاص طور پر مسلمان ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو جرمنی آنے کی اجازت دینے کے حوالے سے میرکل کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا، ’’سن 2015 میں ایک ملین سے زائد مہاجرین جرمنی آئے، حکومت نے ان میں سے زیادہ تر کی مانیٹرنگ نہیں کی۔ چانسلر نے آسٹریا میں موجود تارکین وطن کے لیے جرمن سرحدیں انسانی بنیادوں پر کھولیں لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس بارے میں انہوں نے دیگر یورپی ممالک کو اعتماد میں نہیں لیا۔ اب اگر ہم نے اس ضمن میں اقدامات نہ کیے تو ہمیں دوبارہ ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘

میرکل اگلے چار برس تک چانسلر کے فرائض انجام دینے کے لیے پُرامید

دوسری جانب میرکل نے اپنی انتخابی مہموں میں جرمن عوام سے وعدہ کیا ہے کہ جرمنی میں آئندہ مہاجرین کا ایسا بحران پیدا نہیں ہو گا۔ سن 2015 کے بعد سے جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے تاہم مشرق وسطیٰ میں امن و امان کی صورت حال اور افریقی ممالک کے معاشی حالات کے پیش نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ کی جانب مہاجرت میں پھر سے اضافہ ہو سکتا ہے۔

دو برس قبل جب جرمنی میں مہاجرین کا بحران اپنے عروج پر تھا تو میرکل اور ان کی سیاسی جماعت سی ڈی یو کی عوامی مقبولیت کافی کم ہو گئی تھی۔ اس وقت کے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اسّی فیصد سے زائد جرمن عوام کی رائے یہ تھی کہ مہاجرین کی صورت حال میرکل حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے۔

ترکی اور یورپی یونین کے مابین گزشتہ برس مہاجرین سے متعلق معاہدہ طے پانے کے بعد بلقان کی ریاستوں کے ذریعے جرمنی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ تاہم لیبیا سے بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اس برس نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

میرکل اور ان کی سیاسی جماعت انتخابات سے قبل مہاجرین کے بحران کی عوامی حمایت میں کمی کو بہتر بنانے میں کامیاب رہی ہيں اور اس وقت میرکل کو مارٹن شُلز کے مقابلے میں پندرہ فیصد زائد عوامی حمایت حاصل ہے۔

تاہم قدامت پسند جرمن سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ اب مارٹن شُلز بھی میرکل کی مہاجر دوست پالیسی کو ہدف تنقید بنا کر عوامی حمایت میں اضافے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایس پی ڈی کی اس نئی حکمت عملی سے میرکل کو کتنا نقصان ہو سکتا ہے، اس کا فیصلہ جرمن عوام ستمبر کے انتخابات ہی میں کریں گے۔ فی الحال میرکل گرمیوں کی چھٹیوں پر ہیں اور ان کی جانب سے شُلز کی حالیہ تنقید پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔

جرمن انتخابی نظام اور طریقہء کار