1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا مصر کے حوالے سے جرمن پالیسی تبدیل ہو چکی ہے؟

2 مارچ 2017

جرمنی مصر کی اس حکومت سے تعلقات بڑھا رہا ہے، جو اخوان المسلمون اور جمہوری کارکنوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ برلن حکام مہاجرین کے معاملے پر بھی مصری حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2YVo1
Ägypten Präsident und Minister
تصویر: picture-alliance/AA/Egyptian Presidency

جرمن چانسلر انگیلا میرکل مصر اور تیونس کے دو روزہ دورے پر روانہ ہو چکی ہیں لیکن مصر کا دورہ ان کے لیے ایک مشکل دورہ ہے۔ سن 2013ء میں جب سے جنرل عبدالفتاح السیسی ملک کی پہلی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا ہے، تب سے مصری حکومت بین الاقوامی سطح پر تنقید کی زد میں ہے۔

موجودہ حکومت کی طرف سے نہ صرف کالعدم اخوان المسلمون کے اعتدال پسند کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ مصر کے متعدد جمہوریت پسند کارکنوں کو بھی حکومتی جبر و تشدد کا سامنا ہے۔ مصری حکومت ایسے کارکنوں خاص طور پر اخوان المسلمون کے کارکنوں کو ’دہشت گردی‘ کے الزامات کے تحت گرفتار کرتی ہے لیکن زیادہ تر کے خلاف حکومت کے پاس کوئی ایک ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔ 

’’اصلاحات پسند‘‘ اور مغرب کا اتحادی السیسی

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ساتھ ساتھ مصری صدر السیسی خود کو برداشت کا سفیر اور اصلاحات پسند کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے اس منصوبے کے لیے وہ ’’مذہبی مکالمے کی تجدید‘‘ چاہتے ہیں اور اس حوالے سے وہ قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی میں قدامت پسند علماء کی حمایت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ علماء مذہبی انتہاپسندی کی شدید مذمت کے ساتھ ساتھ اعتدال پسند اسلام کی وکالت کرتے ہیں۔

جرمن کمپنیوں کے لیے اچھا کاروبار

حالیہ کچھ عرصے سے مصری حکومت کے نئے شراکت داروں میں جرمنی بھی شامل ہے۔ جرمن حکومت نے السیسی کے اقتدار میں آنے کے بعد ان سے دوری اختیار کر لی تھی لیکن سن 2015ء سے حیران کن طور پر جرمن پالیسیاں تبدیل ہوئی ہیں۔

ان پالیسیوں میں تبدیلی کی وجہ بھی کچھ دیر بعد سامنے آ گئی تھی۔ 2015ء کے وسط میں مصری صدر نے جرمن کمپنی سیمنز کو ایک گیس ٹربائن پاور پلانٹ کی تعمیر کے لیے اربوں یورو کا ٹھیکہ دیا تھا۔ اسی برس اپوزیشن کی تنقید اور مصر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود جرمنی کے وزیر اقتصادیات نے مصری بحریہ کے لیے چار جدید آبدوزوں کی جرمنی میں تیاری کی اجازت دے دی تھی۔

اس حوالے سے پہلی آبدوز دسمبر 2016ء میں مصر کے حوالے کی گئی تھی اور اس موقع پر مصری بحریہ کے سربراہ اسامہ منیر نے حسب توقع یہ کہا تھا کہ دونوں ملک مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔

جرمنی اور مصر کے تعاون پر تنقید

جولائی 2016ء میں دونوں ملکوں نے سلامتی کے ایک معاہدے پر دستخط کر دیے تھے۔ فروری 2017ء کے وسط میں مصری پارلیمان نے بھاری اکثریت سے اس باہمی سکیورٹی معاہدے کی توثیق کر دی تھی لیکن جرمن پارلیمان میں اسے معاہدے کو آج تک پیش نہیں کیا گیا۔

اس کے علاوہ 2016ء میں مصر کو فراہم کیے جانے والے جرمن فوجی ساز و سامان کی مالیت بھی چار سو ملین بنتی ہے۔ جرمنی میں اس حکومتی پالیسی پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ جرمن اپوزیشن کا کہنا تھا کہ اس طرح السیسی کی ایک آمرانہ حکومت کو جائز سمجھا جا رہا ہے۔

مصر کے ساتھ مہاجرین سے متعلق معاہدہ؟ 

ملک میں تنقید کے باوجود برلن اور قاہرہ حکومت کے مابین مفاہمت بڑھ رہی ہے اور دونوں ملک تعاون کو مزید مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جرمن حکومت ترکی کی طرح مصر کے ساتھ بھی مہاجرین سے متعلق ایک معاہدہ کرنا چاہتی ہے۔ دو طرفہ تعاون کے تحت زراعت کو بھی وسعت دی جائے گی۔

جرمن چانسلر کی طرف سے مصر کا دورہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کا ایک نیا دروازہ کھولے گا اور مصر میں ان کا بے چینی سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ کیوں کہ اس سے متنازعہ مصری صدر کی طاقت میں مزید اضافہ ہوگا اور یہ ان چند مصریوں کے لیے بھی خوش خبری ہے، جو السیسی کو ’’عربوں کا رہنما‘‘ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔