1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا مشرف خود ایک مسئلہ ہیں؟

30 مئی 2008

پاکستان میں صدر مشرف کے استعفعے کی افواہیں گردش نے ایک عجییب سی سایسی صورتحال پیدا کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/E9zV
)تصویر: AP

پاکستان میں ججوں کی متنازعہ بحالی کا مسئلہ ، اِسی حوالے سے وکلاء کی احتجاجی تحریک، نیا آئینی ترمیمی پیکج ، اور صدر پرویز مشرف کا مستقبل، یہ سب عوامل ایٹمی طاقت کے حامل پاکستان میں مسلسل سیاسی اور آئینی بے یقینی کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ لیکن عوام کا سیاستدانوں سے ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہی سارے مسائل پاکستان کے بڑے مسائل ہیں تو پھر مہنگائی، بے روزگاری اور نہ ختم ہونے والی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کس کا مسئلہ ہے۔ اس سوال کا جواب پاکستان کے عام شہریوں کو تو ابھی تک نہیں ملا، لیکن سیاستدانوں کے مسلسل بیانات گذرے ہوئے کَل کی طرح آج بھی جاری ہیں۔ بات اگر صرف اس بارے میں کی جائے کہ کیا، اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ صدر مشرف ہیں؟ تو پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن ایاز امیر کہتے ہیں ، کہ صدر مشرف کو ایک مسئلہ تصور کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جا تا ہے ان کے رہنے سے مسائل کا حل بھی مشکل ہے۔ ایاز امیر نے کہا کہ ان کے خیال میں اٹھارہ فروری کے بعد صدر مشرف کسی بھی چیز کا مسئلہ نہیں رہے۔ ان کے جانے سے اصل مسائل اپنی جگہ رہیں گے۔

پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے جو امریکہ کی قریبی اتحادی بھی ہے، اور اِسی وجہ سے پاکستان کے داخلی سیاسی معاملات میں در پردہ امریکی مداخلت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں صدر مشرف کے سربراہ مملکت کے عہدے پرآئندہ بھی فائز رہنے، یا نہ رہنے کے بارے میں امریکی حکومت کی سیاسی ترجیحات کیا ہیں۔ اس بارے میں واشنگٹن میں ڈوئچے ویلے کے نمائندے انور اقبال نے بتایا کہ ، ً ریپبلکن پارٹی پاکستان، عراق اور افغانستان کے حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ نیہں لینا چاہتی ۔ انہوں نے بتایا کہ ہینری کسنجر نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ امریکہ کو صدر مشرف کے بارے میں کوئی واضع اسٹینڈ نہیں لینا چاہیے۔ اور امریکی حکومت اس وقت کچھ ایسی ہی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔

صدر مشرف کے استعفے کی افواہوں اور معزول ججوں کی بحالی کے لئے وکلاء کے ممکنہ لانگ مارچ کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئرمین آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں سوشلسٹ انٹرنیشنل نامی کی ایک کانفرنس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں بظاہر ایک سفارتی اور غیر واضع مؤقف اپنایا ہے۔