1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا تیل کی قیمت میں کمی سود مند ہے؟

عدنان اسحاق/رولف ونکَل18 دسمبر 2008

تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کی طرف سے تیل کی پیداوار میں کمی کرنے کے فیصلے کے بعد ایشیائی منڈیوں میں خام تیل کی فی بیرل قیمت مزید کم ہوکر39,91 ڈالرہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/GJ8s
تصویر: AP

گذشتہ ساڑھے چارسال میں یہ تیل کی سب سے کم فی بیرل قیمت ہے۔ الجزائیر منعقدہ اجلاس میں اوپیک نے اپنی یومیہ پیداوارمیں 2,2 ملین بیرل کی کمی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی حوالے سے Rolf Winkel کا لکھا تبصرہ:

عجیب بات ہے کہ اوپیک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ بھی قیمتوں میں اضافے کا سبب نہ بن سکا اوریہ قیمتیں مزید گرگئیں۔ یہ خبر موٹر گاڑیوں کے مالکان، فضائی کمپنیوں، سردیوں میں تیل سے ہیٹرچلانے والوں اور صنعتی اداروں، سب ہی کے لئے اچھی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی پوری عالمی معیشت کے لئے ایک اچھی خبر ہے تویہ بھی غلط نہ ہو گا۔

Symbolbild Preis für Öl steigt auf neue Rekordhöhe
ماہرین کے مطابق تیل کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست تعلق تیل کی طلب سے ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

قیمتوں میں کمی کا براہ راست تعلق تیل کی طلب سے ہے۔ اور ساتھ ہی اس کا تعلق عالمی مالیاتی بحران سے بھی بنتا ہے۔ تیل کی گرتی ہوئی قیمت جہاں معیشی استحکام کا باعث بنتی ہے، وہیں یہ مالی بحران کی شدت کم کرنے میں مدد بھی دے گی۔ آجکل، جب دنیا بھرمیں لوگ اقتصادی بحران کی وجہ سے اخراجات میں کمی کررہے ہیں، ایسے میں تیل کی قیمتوں میں کمی ایک ڈھارس سے کم نہیں۔ ساتھ ہی یہی گرتی ہوئی قیمتیں افراط زر کو کم کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ یہی کم تر قیمتیں مرکزی بینکوں کے لئے، کرنسی کی قدر وقیمت کو کم رکھنے کا ہدف ترک کئے بغیر، سود کی شرح کو کم کرتے ہوئے مالی بحران کا مقابلہ کرنے کو ممکن بناتی ہیں۔ اس حوالے سے بھی تیل کی قیمتوں میں کمی ایک اچھی خبر ہے۔

دوسری جانب تیل کی قیمت میں کمی کے صرف فوائد ہی نہیں نقصانات بھی ہیں۔ اوپیک نے ایسا یونہی نہیں کہا کہ فی بیرل تیل کی قیمت 70 سے 80 امریکی ڈالرکے درمیان ہونی چاہیے۔ موجودہ صورتحال میں تقریبا فی بیرل 40 ڈالر قیمت تیل کی منڈی کو اس مجوزہ ہدف سے کافی دور رکھے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو زبردست نقصان کا سامنا ہے جس سے ان کی ترقی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ترقی میں پیش رفت نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تیل کی قیمتیں ایک بار پھر آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی۔

Ölförderung in China
تصویر: AP

ہر سال دنیا بھر میں تیل کے تقریبا چھ فیصد کنوئیں تیل ختم ہوجانے کی بناء پر بند کر دیئے جاتے ہیں۔ نئے کنوؤں کی تلاش اورایسے ہی دیگر منصوبوں کے لئے اربوں ڈالر کی رقوم درکار ہوتی ہیں۔ تیل کمپنیوں کو خسارے کی وجہ سے آجکل اس شعبے میں سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے کیونکہ تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی ان ترقیاتی کاموں کے لئے کافی نہیں ہے۔ سستے تیل کو میٹھے زہرسے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں اس شعبے میں ہونے والی تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کم ہوگئی ہے اور قابل تجدید توانائی کے حوالے سے اصلاحاتی پروگرام بھی متاثرہو رہے ہیں۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ معیشی صورتحال کے ایک مرتبہ پھر مستحکم ہوتے ہی تیل کی مانگ میں اضافہ ہو گا اور صورتحال یکسربدل جائے گی۔ یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ تیل کی قمیت ایک مرتبہ پھر رواں سال کے موسم گرما کی طرح 147 ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائے گی۔

ان سب حقائق کو دیکھا جائے تو اوپیک کا یہ کہنا کہ تییل کی قیمت 70 سے 80 ڈالر کے درمیان ہونی چاہیے، غلط نہیں ہے۔ اس سے یہ ہو گا کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک اور صارفین، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی۔ تقریبا ایک برس قبل انہی دنوں میں تیل کی قیمت نے100 ڈالرفی بیرل کی ریکارڈ سطح کوچھوا تھا۔ اب بھی، فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ وقت جلد ہی دوبارہ آئے گا!