1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا تارکین وطن کے روپ میں جہادی بھی یورپ پہنچ رہے ہیں؟

امتیاز احمد16 ستمبر 2015

ایسی آوازیں زور پکڑتی جا رہی ہیں کہ جہادی بھی تارکین وطن کے روپ میں یورپ پہنچ سکتے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق عسکریت پسندوں کو اس طرح جان خطرے میں ڈال کر یورپ پہنچنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1GXQU
Deutschland Grenze Österreich Flüchtlinge Grenzüberquerung
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel

یورپ کے متعدد سیاستدان گزشتہ کئی ہفتوں سے اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے عسکرہت پسند بھی تارکین وطن کے بھیس میں یورپ پہنچ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ مسیحیوں کے روحانی پیشوا پاپ فرانسس نے بھی رواں ہفتے کہا ہے کہ ان کے ’’یورپ پہنچنے کے خطرات‘‘ موجود ہیں۔ لیکن تجزیہ کار ان خیالات سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے رائے میں داعش ایسے شدت پسند گروپوں کے پاس ایسے جدید ذرائع اور طریقے موجود ہیں کہ وہ تارکین وطن کا روپ دھارے بغیر یورپ تک پہنچ سکتے ہیں۔

تھنک ٹینک ’آئی ایچ ایس جینز ٹیررازم اینڈ انسرجینسی سینٹر‘ سے وابستہ میتھیو ہنمن کہتے ہیں، ’’ایک طرف سے دیکھا جائے تو یہ نقطہ واقعی قابل تشویش ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یورپی شہریوں کی ایک بڑی تعداد داعش میں شمولیت کر چکی ہے اور ان کے پاس باقاعدہ پاسپورٹ ہیں۔ داعش کے ایسے ہمدرد سفر کے روایتی طریقے استعمال کرتے ہوئے یورپ پہنچ سکتے ہیں۔‘‘

قبل ازیں یورپی یونین کے انسداد دہشت گردی کے ادارے کے سربراہ جائلز ڈی کیرشوف نے مارچ میں خبرادار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یورپی یونین کو اپنی سرحدوں کی نگرانی سخت کر دینی چاہیے کیونکہ عسکریت پسند تارکین وطن میں شامل ہو کر آسانی کے ساتھ یورپی یونین میں داخل ہو سکتے ہیں۔

فرانسیسی خفیہ ادارے کے ایک عہدیدار کا اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اس وقت ہمارے پاس کوئی ایک بھی ایسا اشارہ موجود نہیں ہے کہ جہادی تارکین وطن کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔‘‘ اس فرانسیسی عہدیدار کا کہنا تھا، ’’یہ سچ ہے کہ جہادی اپنے آپ کو چھپانے کے لیے زمینی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے پاس اس قدر مالی وسائل موجود ہیں کہ وہ خطرناک سمندری رستہ اختیار کیے بغیر یورپ پہنچ سکتے ہیں۔‘‘

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپ میں دہشت گردی کے جتنے بھی واقعات رونما ہوئے ہیں، ان میں وہ لوگ شامل تھے، جن کے پاس یورپی پاسپورٹس تھے۔