1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا برطانوی شہر ’لیوٹن‘ انتہا پسندوں کا گڑھ ہے؟

2 اگست 2011

برطانوی حکومت کے مطابق چند معروف اسلامی انتہا پسندوں کے لندن سے شمال کی طرف واقع شہر لیوٹن میں رابطے تھے۔ تاہم وہاں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ شہر کو انتہا پسندوں کا گڑھ سمجھا جانا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔

https://p.dw.com/p/125b5
Nur für das Projekt 9/11: Spurensuche UK

یہ لیوٹن کے ایک پرسکون رہائشی علاقے میں بالکل عام سا ایک گھر تھا لیکن گزشتہ سال اچانک یہ گھر صحافیوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اس گھر میں تیمور عبد الوہاب العبدلی رہتا تھا۔ سویڈن کے شہر سٹاک ہولم میں خود کش حملہ کرنے سے پہلے ساری رات عبد الوہاب العبدلی اسی مکان میں تیاری کرتا رہا تھا۔ اس حملے سے پہلے اس نے ایک ویڈیو ریکارڈ کی، جس میں اس کا کہنا تھا کہ سویڈن کے فوجی افغان جنگ میں مصروف ہیں اور یہ حملہ اس کا بدلہ ہے۔ ویڈیو میں اس نے یہ بھی کہا کہ اللہ اس کی شہادت کو قبول فرمائے۔

Ausbreitung des islamistischen Terrors in Luton England
عبدالقدیر بخشتصویر: DW/L.Bevanger

العبدلی لیوٹن میں رہتے ہوئے شہر کی مرکزی مسجد میں نماز ادا کیا کرتا تھا اور وہاں اپنے انتہا پسندانہ نظریات کی وجہ سے مشہور تھا۔ مرکزی مسجد کے امام عبدالقدیر بخش کا ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’وہ اسلام کی غلط تشریح پیش کرتا تھا۔ میں نے اسے ذاتی طور سمجھانے کی کوشش بھی کی۔ لیکن یہ کوشش ناکام ہی رہی۔‘‘

بخش کے مطابق ایک مرتبہ انہوں نے فجر کی نماز کے بعد سب کے سامنے اسے سمجھایا، ’’آخر میں وہ بہت پریشان تھا اور غصے میں مسجد سے نکل گیا۔ میں نے اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

العبدلی ان کئی افراد میں سے ایک ہیں، جن کی وجہ سے برطانوی شہر لیوٹن کا تشخص خراب ہوا۔

Ausbreitung des islamistischen Terrors in Luton England
’کونسل آف فیتھ‘ کے سربراہ ظفر خانتصویر: DW/L.Bevanger

اس واقعے کے بعد لیوٹن میں ایک اسلام مخالف تنظیم ’انگلش ڈیفنس لیگ‘ (EDL ) معرض وجود میں آئی۔ اس کے بعد سے لیوٹن کو انتہا پسندوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

شہر میں ’کونسل آف فیتھ‘ کے سربراہ ظفر خان معاشرے کو متحد رکھنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق دونوں اطراف انتہا پسندوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، ’’بعض اوقات ان اقلیتی گروہوں کی سیاست کو بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔‘‘

لیوٹن میں تقریباﹰ 30 ہزار مسلمان آباد ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا کہنا ہے کہ میڈیا میں لیوٹن کی غلط تصویر پیش کی جاتی ہے۔ سن 2008 میں برطانوی خفیہ ایجنسی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ لیوٹن، برمنگھم اور لندن وہ شہر ہیں، جہاں اسلامی انتہا پسندوں کے نیٹ ورک موجود ہیں لیکن ابھی تک ایسا کوئی بھی ثبوت نہیں ملا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ یہ شہر انتہا پسندوں کے نشانے پر ہے۔

Ausbreitung des islamistischen Terrors in Luton England
لیوٹن سٹی کونسل نے مختلف مذاہب کے لوگوں کو قریب لانے کے لیے سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیںتصویر: DW/L.Bevanger

لیوٹن کے مقامی سیاستدان بھی شہر کے لیے فکر مند ہیں۔ لیوٹن سٹی کونسل نے گزشتہ ایک سال سے ثقافتی تنوع اور مختلف مذاہب کے لوگوں کو قریب لانے کے لیے سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں۔ سٹی کونسل میں سماجی انصاف اور برابری کے لیے کام کرنے والے شعبے کی سربراہ سارہ ایلن کا کہنا ہے کہ شہر کا امیج بہتر بنانے کے لیےمستقبل میں بھی اسی طرح کے اقدامات جاری رکھے جائیں گے۔ دوسری جانب مستقبل میں برطانوی پولیس بھی ہر اس شہر اور علاقے کی کڑی نگرانی جاری رکھے گی، جہاں مسلمانہں کی اکثریت ہے۔

رپورٹ: لارس بیوانگر / امتیاز احمد

ادارت: امجد علی