1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جنگل‘ کے بچے کہاں جائیں؟ برطانیہ اور فرانس میں تکرار جاری

عاطف بلوچ، روئٹرز
29 اکتوبر 2016

فرانسیسی حکام نے کَیلے کی مہاجر بستی کے مکمل انہدام کی کارروائیاں تیز کر دیں ہیں اور اب ’جنگل‘ کے نام سے مشہور یہ مہاجر بستی تقریباﹰ ختم ہو چکی ہے۔ مگر یہاں موجود بچوں کا کیا ہو گا؟

https://p.dw.com/p/2RsTx
Frankreich Räumung Dschungel von Calais
تصویر: Reuters/P. Rossignol

سو سے زائد فرانسیسی قانون سازوں نے برطانیہ سے اپیل کی ہے کہ وہ کیَلے کی مہاجر بستی کے لاوارث بچوں کو اپنے ہاں جگہ دے۔ یہ بچے برطانیہ میں اپنے اہل خانہ سے ملنے کے خواب لیے اس مہاجر بستی میں رہتے رہے، مگر یہ بستی اب ختم ہو چکی اور ان بچوں کو دیگر مہاجر مراکز منتقل کیا جا چکا ہے۔

منگل کے روز تک اس مہاجر بستی میں چھ سے آٹھ ہزار تک کی تعداد میں مہاجر تھے، تاہم یہاں موجود مہاجرین کو فرانس کے مختلف حصوں میں قائم مہاجر کمیپوں میں منتقل کر دیا گیا ہے، جب کہ بلڈوزر اس بستی کو منہدم کرنے میں مصروف ہیں۔ ہفتے کی صبح مقامی وقت کے مطابق قریب آٹھ بچے اس بستی کے شمالی حصے میں تین بڑے بلڈوزروں نے یہاں موجود کیمپوں کو منہدم کیا۔ اس مقام سے ملبے کو بھی ہٹانے کا کام جاری ہے۔

یورپ کو درپیش مہاجرین کے بحران کی ایک علامت سمجھے جانے والے اس کیمپ کے متعدد خیموں میں بدھ کو آگ بڑھ اٹھی تھی۔ پولیس کے مطابق متعدد مہاجروں نے اس مہاجر بستی سے اپنی زبردستی منتقلی کے خلاف احتجاج کے طور پر ان کیمپوں کو آگ لگائی، تاہم آتش زدگی کے بعد مہاجرین کی منتقلی کا کام طے شدہ معمول سے تیز تر کر دیا گیا۔

Frankreich Clalais Demonstrationen Flüchtlingscamp
یہ بستی اب مکمل طور پر ختم ہو چکی ہےتصویر: Getty Images/AFP/P. Huguen

حکام کا خیال تھاکہ پیر کی شب تک یہ کیمپ مکمل طور پر صاف کر دیا جائے گا، مگر ہفتے کی صبح ہی یہاں پولیس یا دیگر افراد کے کرنے کے لیے باقی کوئی کام بچا دکھائی نہیں دیتا۔

پیرس میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قریب سو قانون سازوں نے برطانوی وزیرداخلہ کو تحریرکردہ ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ اس کیمپ کے تنہا بچوں کو فوری طور پر برطانیہ میں پناہ دی جائے، تاکہ وہ وہاں اپنے اہل خانہ سے ملائے جا سکیں۔

اس خط کی کاپی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بھی ارسال کی گئی ہے۔ اس خط کے مطابق کَیلے کی مہاجر بستی میں 15 سو تنہا بچے بھی تھے، جنہیں فی الحال مہاجرین کے لیے بنائے گئے ایک استقبالیہ سینٹر میں ایک کنٹینر میں قائم کیمپ میں رکھا گیا ہے۔ اس خط کے مطابق، ’یہ بچے کوئی خصوصی احسان نہیں چاہتے بلکہ بین الاقوامی اور برطانوی قانون کے تحت انہیں یہ حق حاصل ہے کہ انہیں قبول کیا جائے۔‘‘

اس خط میں مزید کہا گیا ہے، ’’ان کی فوری طور پر برطانیہ منتقلی کی ضرورت ہے۔ ہم آپ کو اپنی ذمہ داریاں انجام کرنے کا کہتے ہیں اور آپ کو کہتے ہیں کہ اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ان کی فوری روانگی کو یقینی بنایا جائے۔‘‘