1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوئٹہ دھماکا: وکلاء میں خوف کی لہر

تنویر شہزاد، لاہور8 اگست 2016

اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو پھر وکلاء کو ٹارگٹ کرنے کے لیے ایسا واقعہ ملک کے کسی بھی عدالتی احاطے کے آس پاس ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Jddp
Pakistan Quetta Bombenanschlag vor einer Klinik
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری اسد منظور بٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس واقعے نے پاکستان بھر کے وکلاء کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسد منظور بٹ کے بقول اس صورتحال پر غور کے لیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو باڈی کا اجلاس کل بروز منگل اسلام آباد طلب کر لیا گیا ہے۔

بٹ کے بقول اس وقت ملک بھر میں سانحہ کوئٹہ کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا ہے۔ کل ملک بھر میں شہدائے سانحہ کوئٹہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جائیں گی۔ وکلاء برادری نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اگلے تین دن عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے جبکہ سانحہ کوئٹہ پر سات روزہ سوگ کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

اسد منظور بٹ کے بقول جس وقت یہ سانحہ ہوا اس دن چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی لاہور رجسٹری میں موجود تھے۔ انہوں نے وکلاء نمائندوں کے ساتھ ایک ملاقات کرکے ججوں اور وکلاء کی سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا اور اعلیٰ حکام کو طلب کرکے اس سلسلے میں فوری احکامات جاری کیے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ وکلاء برادری کو اس لیے ٹارگٹ کیا گیا ہے کیونکہ وہ جمہوریت، انسانی حقوق اور انصاف کے لیے کھڑی ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کل اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے باہر بھی وکلاء احتجاج کریں گے اور پاکستان کی تمام عدالتوں کے احاطوں میں فول پروف سکیورٹی دیے جانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ چند ہفتے پہلے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے کو بھی اغوا کیا گیا تھا۔ سانحہ کوئٹہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پوری پاکستانی قوم جشن آزادی کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

پاکستان بھر کے وکلاء کے منتخب نمائندے اور پاکستان بار کونسل کے چیف ایگزیکٹو بیرسٹر فروغ نسیم نے سانحہ کوئٹہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سانحے میں وکلاء کے کئی سینیئر لیڈرز بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومتیں عام شہریوں خاص طور پر وکلاء کی حفاظت میں ناکام ہو چکی ہیں، ’’اب ہم عسکری سکیورٹی ایجنسیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہمیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے آگے آئیں۔ ادھر کراچی میں ہم نے ڈی جی رینجرز سے رابطہ کر کے کل ایک میٹینگ رکھی ہے تاکہ اس ضمن میں پیش رفت ہو سکے۔‘‘

ایک اور سوال کے جواب میں فروغ نسیم نے بتایا کہ کوئٹہ میں فرقہ وارانہ فسادات اور مزاحمت کرنے والے گروپوں کی طرف سے کاروائیاں ہوتی رہی ہیں، لیکن اس واقعے میں غیر ملکی عناصر بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کافی نہیں ہوں گی بلکہ عسکری اداروں کو اس سانحے کے ذمہ داروں کا کھوج لگانا چاہیے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی بہتری لائی جانا چاہیے۔ ان کے بقول دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابیاں اپنی جگہ لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے کا جشن منا سکیں۔

Syed Ali Zafar Pakistan
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بیرسٹرعلی ظفر کے بقول وکلاء برادری کو اس لیے ٹارگٹ کیا گیا کیونکہ وہ جمہوریت، انسانی حقوق اور انصاف کے لیے کھڑے ہوتی ہےتصویر: DW/T. Shahzad

ایک نوجوان وکیل نوید شاہین ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وکلاء برادری کا اس وقت حکومت کی طرف سے اٹھائے جانے والے حفاظتی اقدامات سے اعتماد اٹھ چکا ہے اور انہیں ایک انجانے سے خوف کا سامنا ہے کوئی نہیں جانتا کہ کس وقت کسی جگہ پر کونسی واردات ہو جائے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ نہ صرف وکلاء بلکہ عام شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے مؤثر اور نتیجہ خیز اقدامات کرے۔

ادھر پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن نے سانحہ کوئٹہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگ یہ بات پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ عوام کی حفاظت پر مامور ادارے اس وقت کہاں تھے، جب اس سانحے کے منصوبہ ساز اور اس پر عملدرآمد کرنے والے خواہ وہ غیر ملکی ہوں یا پاکستانی اپنی مکروہ کارروائی میں مصروف تھے۔ کمیشن کے بقول حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے اپنی ناکامی کی وجوہات کی وضاحت کرے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید