1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کمپیوٹرائزڈ عینک ایجاد کر لی گئی

17 جون 2009

ماضی کی معروف ٹی وی سیریز اسٹار ٹریک میں یوں تو اس وقت تک کے کئی حیرت انگیز سائنسی آلات دیکھنے کو ملتے تھے مگر انہی میں سے ایک وہ حیرت انگیز عینک بھی تھی جسے پہننے والے کو تمام طرح کی معلومات نظر آنے لگتی تھیں۔

https://p.dw.com/p/IRmV
کمپیوٹرائرڈ عینکوں پر ایک عرصے سے کام جاری ہےتصویر: AP

اس کے بعد ٹرمینیٹر سیریز میں بھی آرنلڈ شیوارزنیگر یعنی ٹرمینیٹر نےایسی ہی جدید کمپیوٹرائزڈ عینک پہن رکھی ہوتی ہے جس میں اسے ہر وہ معلومات اور ڈیٹا دکھائی دیتا رہتاہے جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے۔ اس ساری تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایسی حیرت انگیز عینک اب سائنس فکشن فلموں تک محدود نہیں رہی بلکہ جرمن سائنسدانوں نے اس سے بھی بہتر عینک تیار کرلی ہے۔

یہ جدید کمپیوٹرائزڈ عینک جرمن شہر ڈریسڈن میں قائم فرانھوفر انسٹیٹیوٹ فار فوٹونک مائیکرو سسٹمز Fraunhofer Institute for Photonic Microsystems یا آئی پی ایم ایس کے سائنسدانوں نے تیار کی ہے۔ اس سے قبل اس طرح کا آلہ جسے In-Visor Read-Out کہا جاتا ہے جدید لڑاکا جیٹ فائٹر جہازوں کے پائلٹ استعمال کرتے ہیں۔ یہ سسٹم پائلٹ کے ہیلمٹ میں لگا ہوتا ہے، اور بٹن دباتے ہی ہیلمٹ کے آگے ایک سیاہ رنگ کی سکرین سی آجاتی ہے جس میں پائلٹ مطلوبہ معلومات دیکھ سکتا ہے۔

لیکن جرمن سائنسدانوں کے تیار کئے گئے اس آلے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ پہلے موجود نظاموں کی طرح Passive یعنی انفعالی نہیں ہے، کہ اس کو استعمال کرنے والا شخص صرف معلومات دیکھنے تک ہی محدود رہے۔ بلکہ یہ جدید عینک Interactive ہے یعنی اسے لگانے والا شخص بغیر کسی بٹن کو دبائے کمپیوٹر سکرین پر حسب منشا معلومات یا ڈیٹا کو سکرین پر دیکھ سکتا ہے۔ کیونکہ اس عینک کے شیشوں میں ہی ایک جدید آلہ Eye Ball Tracker لگا ہوا ہے جو پڑھنے والے کی آنکھ کی پتلی کی حرکت پر نظر رکھتا ہے اور اس کے مطابق معلومات دکھاتا ہے۔ مثلا اگر آپ نے یہ عینک لگائی ہوئی ہے اور کوئی دلچسپ کتاب پڑھ رہے ہیں تو سامنے کھلے ہوئے صفحے کا ایک حصہ پڑھنے کے بعد نیچے کا حصہ پڑھنے کے لئے محض اسکرین کے نچلے حصے پر نظر لے جائیے صفحہ خود بخود نیچے Scroll یعنی سرک جائے گا۔ اسی طرح دوسرے صفحے پر جانے کے لئے اس صفحہ کے کونے پر دیکھئے خود بخود اگلا صفحہ سامنے آجائے گا۔

اس مقصد کے لئے اس عینک کی کمانی پر ایک چھوٹا ساکمپیوٹر نصب ہے۔ یہ پرسنل ڈیجیٹل اسسٹنٹ یا PDA نا صرف مطلوبہ معلومات کو اسکرین پر دکھاتا ہے بلکہ Eye Ball Tracker کے ذریعے حاصل ہونے والی کمانڈز پر عملدرآمد کرتے ہوئے مطلوبہ ڈیٹا یا معلومات اسکرین پر ڈسپلے کردیتا ہے۔

اس جدید نظام کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ 19 ملی میٹر لمبائی اور 17 ملی میٹر چوڑائی والی یہ عینک نہ صرف اس سے قبل بنائے گئے آلات سے سائز میں بہت چھوٹی ہے بلکہ اس کا وزن بھی ان سے بہت کم ہے۔ اس عینک کے شیشوں میں لگا نظام امیج یا تصویر کو دیکھنے والے شخص کی آنکھ کے Retina یعنی پردہ بصارت پر براہ راست منعکس کرتا ہے جس سے دیکھنے والے کو بہت ہی صاف ہائی ریزولوشن اور ہائی ڈیفینیشن امیج ایک میٹر کے فاصلے پرمعلق دکھائی دیتا ہے۔

فرانھوفر انسٹیوٹ فار فوٹونک مائیکرو سسٹمز کے بزنس یونٹ منیجر ڈاکٹر مائیکل شولیس Dr. Michael Scholles کے مطابق انٹرایکٹیو ڈیٹا آئی گلاسز کو طب، ہوابازی اور انجینیئرنگ کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں مختلف کاموں کو سہل اور زیادہ بہتر بنانے کے لئے بہت ہی آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

فرانھوفر انسٹیٹیوٹ کے سائنسدانوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ایک سرجن کسی بہت ہی نازک اور اہم آپریشن کے دوران انٹر ایکٹیو ڈیٹا آئی گلاسز کو کیسے استعمال کرسکتا ہے۔ مثلا دوران سرجری اگر سرجن کو مریض کا ایکسرے یا کوئی دیگر معلومات دیکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ بغیر آلات سرجری کو چھوڑے اور کوئی بٹن دبائے آسانی سے وہ معلومات دیکھ سکتا ہے۔ جس سے وہ زیادہ بہتر انداز سے اپنا کام سرانجام دے پائے گا۔

Dr. Michael Scholles کے مطابق اس سے قبل بھی اس طرح کے مقاصد کے لئے ایچ ایم ڈیز یا ہیڈ ماؤنٹڈ ڈسپلیز استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر ان میں قباحت یہ ہے کہ وہ بہت ہی زیادہ وزنی اور بڑے ہونے کے علاوہ بہت زیادہ مہنگے بھی تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم نے نہ صرف ان تمام مسائل سے پاک یہ نظام تیارکرلیا ہے بلکہ اس کو مزید بہتر بنانے کے لئے اس پر مزید تحقیق جاری ہے۔


رپورٹ افسر اعوان

ادارت امجد علی