کشمیر کے تنازعے کا اثر جشن یوم آزادی پاکستان پر
14 اگست 2016پاکستان میں اتوار کے روز 70واں یوم آزادی منایا جا رہا ہے، تاہم کشمیر کا تنازعہ اس بار بھی پاکستانی سیاسی منظرنامے پر چھایا ہوا ہے۔ بھارت اپنا یوم آزادی 15 اگست کو منا رہا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے حامل ان دو ہمسایہ ممالک کے درمیان برطانیہ سے آزادی سے لے کر اب تک تین جنگیں ہو چکی ہیں اور ان جنگوں کے درپردہ یہی تنازعہ کارفرما رہا ہے۔
حالیہ کچھ ہفتوں میں بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں پرتشدد واقعات میں اب تک پچاس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور نئی دہلی حکومت کا الزام ہے کہ پاکستان کشمیری عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی حکام بھارت پر وادیء کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔
کشمیر کے موضوع کی پاکستانی سیاست میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کا 70واں یوم آزادی ’کشمیر کی بھارت سے آزادی‘ سے منسوب کر دیا۔
وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے کہا، ’’اس بار یوم آزادی انتہائی یادگار ہے کیوں کہ آزادیء کشمیر کے حوالے سے ہمارا عزم اپنی اوج پر ہے۔ کشمیروں کی نئی نسل نے ایک نئی قوت سے آزادی کا پرچم بلند کر دیا ہے۔‘‘
کشمیری امور کے بھارتی ماہر وارد شرما نے تاہم ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’اسلام آباد حکومت جموں اور کشمیر کے تنازعے کو تقسیم ہند کا نامکمل حصہ سمجھتی ہے۔‘‘
یوم آزادی تشدد کے درمیان
بعض مبصرین کا تاہم یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانی حکام کشمیر کا موضوع اپنے عوام کی توجہ دیگر مسائل سے ہٹانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ابھی ایک ہفتہ قبل عسکریت پسندوں نے ایک خودکش حملہ کر کے پاکستان کے مغربی شہر کوئٹہ میں 80 افراد کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کر دیا تھا۔ پاکستانی حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ کوئٹہ دہشت گردانہ حملے کے پیچھے بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کا ہاتھ تھا۔
پاکستان کے جنوبی شہر کراچی میں مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن زینیا شوکت کا کہنا ہے، ’’بھارتی ایجنٹوں نے یہ کام کیا۔ یہ بات صرف ہمارے پالیسی سازوں ہی نہیں بلکہ عام شہریوں کے دماغ پر بھی طاری رہتی ہے۔ بدقسمتی سے میڈیا بھی اپنے اظہاریوں میں ’غیرملکی قوتوں نے یہ حملہ کیا‘ جیسی باتیں کرتا ہے۔‘‘