1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: کرفیو کا گیارہواں روز، ادویات کی قلت

امتیاز احمد19 جولائی 2016

بھارت کے زیرکنٹرول کشمیر میں گزشتہ گیارہ روز سے کرفیو نافذ ہے، جس کے وجہ سے وہاں اشیائے خورد و نوش کے ساتھ ساتھ ضروری ادویات کی بھی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ کشمیریوں کے مطابق انہیں گھروں میں ’قید‘ کر کے رکھ دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JSDa
Kaschmir - Proteste in Srinagar
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan

بھارتی سکیورٹی فورسز کے مابین ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد پینتالیس تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری جانب دوکانداروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ضروریات کا سامان ختم ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ کرفیو کی وجہ سے سامان والے ٹرک علاقے تک نہیں پہنچ پا رہے۔

سری نگر کے پرانے حصے میں میڈیکل اسٹور چلانے والے نذیر احمد کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ادویات کے بغیر لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اس وقت ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور اینٹی ڈپریشن ادویات کی اشد ضرورت ہے۔

Kaschmir - Proteste in Srinagar
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan

نذیر احمد کا مزید کہنا تھا کہ ٹرکوں کو مرکزی سڑکوں سے دور دراز ہی کہیں کھڑا کر دیا جاتا ہے اور انہیں پانچ کلومیٹر دور ایک گودام سے اشیاء لینے کے لیے پیدل جانا پڑتا ہے۔

احمد کا ایک پلاسٹک کے تھیلے میں ادویات لے جاتے ہوئے کہنا تھا، ’’باہر سے تازہ ادویات بالکل بھی نہیں پہنچ رہیں جبکہ جو کچھ میرے پاس ہے وہ بھی دو سے تین دن میں ختم ہو جائیں گی۔‘‘

گزشتہ گیارہ روز سے کشمیر میں عائد کرفیو کی وجہ سے بازار بند ہیں اور نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد ان احتجاجی مظاہروں کا خاتمہ ہے، جن کا آغاز کشمیر کے ایک مشہور نوجوانٰ باغی لیڈر کی ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔

Indien Protestanten in Kaschmir
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa

برہان وانی بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوا تھا اور وہ اس خطے کے سب سے بڑے علیحدگی پسند گروپ حزب المجاہدین کے کمانڈر تھے۔

نئی دہلی حکومت کے خلاف حالیہ احتجاجی مظاہرے سن 2010 کے بعد سے سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے تھے۔ تشدد کی تازہ ترین کارروائی میں دو کشمیری پیر کے روز اس وقت ہلاک ہوئے، جب مظاہرین حکومتی فورسز پر پتھر پھینک رہے تھے اور بھارتی افواج نے ان پر فائرنگ شروع کر دی۔ بھارتی فوج کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے، ’’فوجیوں کو مجبوراً اس وقت فائرنگ کرنا پڑی جب ایک ہجوم پرتشدد ہو گیا اور اس نے فوجیوں سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی۔‘‘ تاہم بھارتی فوج کی جانب سے ان ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔

دریں اثناء سرینگر کے مختلف حصوں میں منگل کے روز مقامی خیراتی اداروں کے رضاکاروں کی طرف سے گھر گھر جا کر ضرورت مند افراد کو خوراک بھی مہیا کی گئی۔

ہائی بلڈ پریشر اور دل کے عارضے میں مبتلا ایک بزرگ خاتون کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ کوئی ادویات بھی انہیں لا دے گا۔ اپنے گھر کے سامنے کھڑی اسی سالہ نوراں کا کہنا تھا، ’’ میری ادویات ختم ہو چکی ہیں۔ رضاکار تو آئے تھے لیکن ان کے پاس میری ضرورت کی ادویات نہیں تھیں۔

اس خاتون کے بیٹے غلام نبی کا کہنا تھا، ’’ہم اپنے گھر میں قید ہیں۔‘‘ بھارتی فورسز کی طرف سے استعمال کی جانے والی آنسو گیس اور پیپر سپرے کی وجہ سے بچے تک بیمار ہو رہے ہیں۔

دوسری جانب انٹرنیٹ اور فون کی سہولیات بھی صرف چند حصوں میں دستیاب ہیں۔