کشمیر میں متنازعہ سکیورٹی قوانین، عمر عبداللہ کا وعدہ
3 نومبر 2011بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ملکی سکیورٹی دستوں اور ریاستی پولیس کو کئی سالوں سے کشمیری علیحدگی پسندوں کی مسلح تحریک اور عوامی مظاہروں کا سامنا ہے۔ وہاں حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے ایسے متنازعہ قوانین نافذ ہیں جن کے تحت فوج اور نیم فوجی دستوں کو بے تحاشا اختیارات حاصل ہیں۔
اس سلسلے میں عمر عبداللہ نے بھارتی ٹی وی چینل NDTV کو بتایا کہ ان کی حکومت جموں کشمیر میں نافذ ان قوانین کے جزوی خاتمے سے متعلق کوئی بھی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے ریاستی کابینہ کی سطح پر تفصیلی مشاورت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ متحدہ کمان کی سطح پر بھی مشورے کیے جائیں گے تاکہ اس بارے میں زیادہ سے زیادہ حد تک مناسب فیصلہ کیا جا سکے۔
طویل عرصے سے خونریزی اور بدامنی کی شکار اس ریاست میں علیحدگی پسندی اور مسلح بغاوت کے خلاف جاری سرکاری سکیورٹی کارروائیوں کی نگرانی یہی متحدہ کمان کرتی ہے۔ اس میں فوج کے سربراہ، نیم فوجی دستوں کی اعلیٰ قیادت اور ریاستی پولیس کے علاوہ کشمیر کی انتطامیہ بھی شامل ہے۔ اس متحدہ کمان کی سربراہی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے پاس ہے۔
اس سلسلے میں اپنے آئندہ ارادوں کا اشارہ دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ابھی حال ہی میں ریاست کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں پولیس اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کے چند خاص حصوں میں خصوصی سکیورٹی قوانین کا نفاذ ختم کر دیا جائے گا۔ اس اعلان کا کافی خیر مقدم کیا گیا تھا۔ تب یہ بھی کہا گیا تھا کہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے میں بہت متنازعہ سکیورٹی قوانین کے خاتمے سے وہاں حالات کو دوبارہ معمول پر لانے میں مدد ملے گی۔
کشمیر میں نافذ اور کالے قوانین قرار دیے جانے والے خصوصی ضابطوں میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ AFSPA اور ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ DAA شامل ہیں۔ یہ قوانین وہاں 1990 سے نافذ ہیں۔ ان قوانین کے تحت وہاں تعینات قریب پانچ لاکھ سکیورٹی اہلکاروں کو وسیع تر خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ ان قوانین کی بہت سے سماجی اور قانونی حلقوں کے علاوہ عوامی سطح پر بھی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔
انہی قوانین کے تحت سکیورٹی اہلکاروں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ شخص کو بغیر کسی عدالت میں پیش کیے طویل عرصے تک حراست میں رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں طاقت کے بھرپور استعمال اور نجی املاک کی تباہی کا حق بھی حاصل ہے۔
بھارتی فوج کی اعلیٰ قیادت ان قوانین میں فی الحال کسی نرمی یا ان کے ریاست میں جزوی خاتمے کے خلاف ہے۔ فوج کے مطابق ایسا کرنے سے اس کی مسلح عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت متاثر ہو گی۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک