1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر مظاہرے، کم از کم 15 افراد ہلاک

13 ستمبر 2010

بھارت کے زیر انتطام کشمیر میں پیر کے روز حکومت مخالف مظاہروں اور امریکہ میں مسلمانوں کی مقدس کتاب جلانے کے دریں اثناء منسوخ کر دئے گئے متنازعہ منصوبے کے خلاف احتجاج کے دوران مزید کم ازکم 15 مظاہرین ہلاک ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/PBH4
تصویر: AP

وادیء کشمیر میں اس وقت غیر معینہ عرصے تک کے لئے کرفیو نافذ ہے اور تازہ ترین ہلاکتیں وادی کے مختلف حصوں میں مظاہرو‌ں کے دوران اور سکیورٹی دستوں کی کارروائی کے نتیجے میں عمل میں آئیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بدامنی کے شکار خطے میں گ‍زشتہ کئی برسوں کے دوران، خاص کر چند ماہ پہلے عوامی مظاہروں کے آغاز سے لے کر اب تک یہ پہلا موقع ہے کہ وہاں ایک دن میں اتنی زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

پیر کے روز وزیر اعظم من موہن سنگھ بھی انہی کشیدہ حالات کے پیش نظر نئی دہلی میں سینیئر وزراء سے ملاقاتیں کی۔ اس میںمظاہروں سے متاثرہ چاروں اضلاع میں نافذ اس قانون کو معطل کرنے پر بات ہوئی، جس کے تحت مسلح افواج کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ تاہم اس حوالے سے کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔

من موہن سنگھ کی خواہش ہے کہ سری نگر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور طویل ہوتی جارہی خونریزی کا ملکی آئین کے مطابق کوئی پر امن حل نکالا جانا چاہئے۔

Kaschmir Kashmir Indien Polizei Protest Demonstration Muslime Steine
تصویر: AP

آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ نامی قانون 1990 میں منظور کیا گیا تھا اور اس کے تحت بھارتی مسلح دستوں کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ وہ گھر گھر جا کر تلاشی لے سکیں، مشتبہ افراد کو گرفتار کر سکیں اور ان کی املاک ضبط کر سکیں۔ اسی قانون کے تحت جموں کشمیر میں بھارتی دستوں کو اپنے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی سے تحفظ بھی حاصل ہے۔

سری نگر سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق وادی میں جو افرادہلاک ہو گئے، وہ سکیورٹی اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ وادی کے شمالی ضلع بانڈی پورہ میں پیر کی صبح کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والے مظاہرین کے خلاف پولیس اور نیم فوجی دستوں کی فائرنگ سے ایک خاتون سمیت پانچ افراد زخمی ہو گئے۔ ان زخمیوں میں سے ایک 23 سالہ شہری نثار احمد بٹ بعد میں ضلعی ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ نثار کو گولی لگی تھی۔

بعد میں بانڈی پورہ کے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ نیم فوجی دستوں نے پتھراؤ کرنے والے مشتعل مظاہرین پر جو فائرنگ کی، اس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ اسی دوران پورے کشمیر میں ہونے والی مختلف جھڑپوں میں متعدد دیگر افراد کے زخمی ہونے اور ہلاکتوں کی بھی رپورٹیں ملی ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ان شہری ہلاکتوں کے خلاف عوام میں زبردست غم و غصہ پایا جاتا ہے جبکہ حکومت نے پہلے ہی پانچ دن تک مسلسل کرفیو کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس دوران مسلح دستوں کو کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم دیا جا چکا ہے۔

لیکن مشتعل مظاہرین کئی مقامات پر کرفیو کے باوجود اپنے احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ریاستی پولیس کا کہنا ہے کہ عید الفطر کے دن سے لے کر اب تک وادی کشمیر میں مشتعل مظاہرین سولہ تھانوں اور چوکیوں پر حملے کر چکے ہیں جبکہ مجموعی طور پر نصف درجن کے قریب سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کیا جا چکا ہے۔

کشمیر میں ان مظاہروں اور جھڑپوں کا آغاز رواں برس جون میں آنسو گیس کا ایک شیل لگنے سے ایک نوجوان کی ہلاکت کے ساتھ ہوا تھا۔ اس واقعے کے بعد گیارہ جون سے لے کر اب تک کشمیر میں مارے جانے والے شہریوں کی تعداد 83 ہو چکی ہے، جن میں سے اکثر سکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت :مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں