کراچی میں جعلی ادویات کی فروخت: چھاپے اور گرفتاریاں
28 اکتوبر 2010ایف آئی اے کرائمز سرکل ون کے ڈپٹی ڈائریکٹر اکبر بلوچ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ شہر میں فروخت ہونے والی کئی ادویات لاہور اور کوئٹہ میں غیر معیاری طریقوں سے تیاری کے بعد کراچی لائی جا رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گرفتار ملزمان سے تفتیش کی روشنی میں شہر میں کئی مقامات پر چھاپے مار کر متعدد میڈیکل اسٹوروں سے غیر معیاری اور بیرون ملک سے اسمگل کردہ ممنوعہ ادویات کو تحویل میں لے کر ان دکانوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔
ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ اس مجرمانہ کاروبار میں ملوث عناصر خاصے با اثر ہیں۔ یہ لوگ بھاری رقوم دے کر کامیاب وکلاء کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور ضمانتوں پر رہا ہو جاتے ہیں۔ اکبر بلوچ نے بتایا کہ ڈرگ ایکٹ 1976 کے تحت کوئی بھی ڈرگ انسپکٹر صرف جعلی اور غیر معیاری ادویات ضبط کر سکتا ہے اور ایسی ادویات فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لئے ڈرگ انسپکٹروں کو ایف آئی اے کی خدمات درکار ہوتی ہیں۔
جعلی ادویات اور ان کی فروخت پر نظر رکھنے کے لئے حکومت نے صوبائی اور وفاقی سطح پر ڈرگ انسپکٹر مقرر کر رکھے ہیں مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ ملک بھر میں جعلی، غیر معیاری اور زائد المیعاد ادویات کی فروخت کی روک تھام کرنے والے یہ ڈرگ انسپکٹر بھاری رشوتوں کے عوض جعلسازوں کے خلاف کارروائی سے دانستہ گریز کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ادویات تیار کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بار بار کی شکایات کے باوجود نہ تو جعلی ادویات فروخت کرنے والے میڈیکل اسٹوروں کے مالکان کے خلاف دیرپا کارروائی ہو رہی ہے اور نہ ہی ایسی نقلی ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں کے خلاف۔
ڈرگ انسپکٹرز کا کہنا ہے کہ انہیں جب بھی کوئی اطلاع ملتی ہے، وہ اس جرم میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ شہریوں کو غیر معیاری اور زائد المیعاد ادویات فروخت کرنے والے کسی بھی میڈیکل اسٹور یا کمپنی کا تجارتی لائسنس ابھی تک منسوخ نہیں کیا گیا۔ ابھی حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ نے بھی یہ حکم دیا ہےکہ غیر معیاری ادویات کی فروخت جیسے سنگین جرم میں ملوث عناصر کے خلاف ذیلی عدالتیں کوئی نرم رویہ اختیار نہ کریں۔ ہائی کورٹ نے ایسی ادویات کو جانچنے کے لئے لیبارٹریوں میں جدید آلات کے دستیاب نہ ہونے کا بھی سختی سے نوٹس لیا ہے۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: عصمت جبیں