1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں آپریشن کی قیاس آرائیاں

18 جنوری 2011

پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی کے مکینوں میں بدستور خوف و حراس پایا جارہا ہے جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے واضح کیا ہے کہ اس وقت شہر میں فوجی آپریشن کے امکان پر غور نہیں کیا جارہا ہے۔

https://p.dw.com/p/zyxR
قمر زمان کائرہ، فوجی ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کے ہمراہ، فائل فوٹوتصویر: dpa

کراچی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق شہر کے حساس علاقوں میں نیم فوجی رینجرز اور پولیس کا گشت بڑھادیا گیا ہے۔ شہر میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران چار مزید ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔

ڈبل سواری پر پابندی کی پاداش میں چھ سو سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ گزشتہ طویل عرصے سے ہدف بناکر قتل کئے جانے کی وارداتوں میں اضافے کے بعد شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ پرتشدد واقعات کی نئی لہر میں اب تک دو درجن سے زائد شہری اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔

Pakistan Ehemaliger Premierminister Nawaz Sharif
مسلم لیگ (نواز) کے سندھ میں نائب صوبائی سربراہ طارق خان بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے تھےتصویر: AP

ادہر لاہور میں اخبار نویسوں سے گفتگو کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ شہر میں سلامتی کو یقینی بنانا صوبائی حکومت کا کام ہے اور اگر وفاق سے درخواست کی گئی تب دیکھا جائے گا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ امن امان یقینی بنانا اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں، تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو حکومت کے کاندھے سے کاندھا ملانا ہوگا۔

وفاقی وزیر نے عندیہ دیا کہ کراچی کے معاملے پر غور کے لئے قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا جاسکتا ہے جس میں کسی بھی حکمت عملی پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کراچی میں قتل و غارت گری پر قابو پانے میں ناکامی پر حکومت کو ایک بار پھر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

Bombenanschlag in Karachi Pakistan
دہشت گردی کی تازہ لہر میں دو درجن سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوئیںتصویر: AP

گزشتہ روز سندھ کے ضلع بدین میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران نواز شریف نے کراچی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کوئی ’نو گو ایریا‘ نہیں بننے دیا جائے گا، یہ ملک سب کا ہے اس میں رنگ ونسل اور زبان کی بنیاد پر کوئی تقسیم نہیں۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ کراچی میں قتل و غارت گری کرنے والوں کو جانتے ہیں۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ میں محکمہ داخلہ سندھ کے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ شہر کی 120 حساس بستیوں میں آپریشن کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اس آپریشن کے لئے ممکنہ طور پر پولیس کے خصوصی دستوں اور رینجرز سمیت خواتین پولیس اہلکاروں کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ صوبائی حکومت اس معاملے پر اتحادیوں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔

رپورٹ : شادی خان سیف

ادارت : عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں