1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کتھک رقص: مغل دربار سے آج تک

Zaman, Qurratulain18 جولائی 2008

اگر ہم ماضی کے تناظر میں دیکھیں تو ہندو مذہب میں کتھک رقص مذہبی کہانیوں اور روایات کے اظہار کا ایک طریقہ تھا... ایک مقدس کام، ایک پوجا۔

https://p.dw.com/p/EaQT
تصویر: AP

برصغیر میں مغلوں کی آمد کے بعد کتھک میں بہت سی اہم تبدیلیاں آئیں۔ مندروں سے نکل کر یہ رقص مغل دربار کی زینت بن گیا اور اسے ایک کلاسیکی فن سمجھا جانے لگا۔اس خوبصورت فن کی آبیاری میں خواتین نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور اس فن کو اگلی نسلوں تک بھی منتقل کر رہی ہیں۔

کتھا کہے سو کتھک کہاوے: مطلب کہانی کہنے والا کتھک ہے اور کتھک رقص ایک ایسا فن ہے جس کے زریعے تمام دنیا ،ایک انجانے احساس میں رچ بس جاتی ہے اور تمام کہانیوں کا آغاز اور اختتام، جسم یا ہاتھ پاؤں کی ایک ہلکی سی جنبش پر ہوتا ہے ۔ فارسی تہذیب و تمدن نے بھی اِس فن پر گہرا اثر ڈالا اور کئی ماہر رقاصوں اور رقاصاؤں نے اردو اور فارسی شاعری کو بھی کتھک سے ہم آہنگ کر دیا۔

مغل دور میں کتھک میں جو تبدیلیاں آئیں، اُن میں سے اہم ترین ہیں، تتکار اور چکر۔ تتکار مطلب پاؤں اور گھنگرؤں کی تھاپ سے پیدا ہونے والی آواز ۔۔۔ کتھک، ایک ایسا رقص، جو دیکھنے والے کو مسحور کر دے، صرف محسوسات ہی اس تتکار کا اصل مطلب اور پیغام سمجھ سکتے ہیں۔
کتھک مندر سے دربار تک پہنچا اور دربار سے بازار تک ۔۔۔اور اس کا سفر آج بھی جاری ہے۔

Türkei Irak Kurden Frauen tanzen in Yuksekova Hochzeit
ترکی میں آباد کرد خواتین شادی کی ایک تقریب میں روایتی رقص کرتے ہوےتصویر: AP

جرمنی میں کتھک سکول:کلاسیکی رقص کتھک کی معروف استاد ، درگا آریا کروگر تیرہ برس قبل بھارت سے جرمنی آئیں اور پھر یہیں کی ہوکر رہگئیں۔ وہ کتھک سمراٹ برجو مہاراج کی سب سے پرانی شاگرد ہیں۔ جرمنی آنے کے بعد بھی درگا آریا نے کتھک سیکھنے اور سکھانے کا سلسلہ جاریرکھا ۔ پہلے برلن میں اورآج کل ایسن شہرمیں۔ درگا کہتی ہیں ’’میرے پاس جرمن، ترک ،جاپانی رقص سیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ میرے شاگرد بہت محنتی ہیں اور کتھک بہس توجہ اور لگن کے ساتھ سیکھتے ہیں۔ اکثر میں ان کی قابلیت کو دیکھ کر حیران بھی ہوتی ہوں۔‘‘

درگا کا کہنا ہے کہ رقص سیکھنے کے لئے کسی پر زور زبردستی نہیں کی جا سکتی ۔ درگا کے بہت سے شاگرد ہیں جو صرف شوق کی خاطر یہ فن سیکھنا چاہتے ہیں:’’میری ایک اسٹوڈنٹ ہے سنندا ۔ وہ جرمنی میں ہی پیدا ہوئی ہے اور یہی کی رہائشی بھی ہے۔ اس نے دس سال تک بھارت ناٹیم سیکھا اور پھر اس نےمیرے سے سات سال کتھک سیکھا ہے۔ وہ بہت اچھی ڈانسر ہے۔ اب وہ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہی ہے تو اس ے پاس کتھک کرنے کے لئے زیادہ ٹائم نہیں ہوتا۔ ‘‘

ایک ماں کی حیثیت سے درگا آریا چاہتی ہیں کہ ان کی بیٹی بھی یہ فن کو سیکھےاور اسے کریئر کے طور پر اپنائے : ’’ میری بیٹی بارہ سال کی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ اچھی کتھک رقاصہ بن سکتی ہے لیکن اسے سکھانے کے لئے مجھے تھوڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ یہی پیدا ہوئی ہے اور کبی بھارت نہیں گئی۔ یہاں کا ماحول اور ثقافت بھارت سے مختلف ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ کتھک کو کرئیر کے طور پر اپنائے ۔‘‘

غیر ملکی ثقافت:کسی بھی ملک میں غیر ملکی ثقافت اور فن کو ترویج دینایقیناً آسان کام نہیں ہے ، لیکن درگا آریا کا تجربہ کچھ اور ہی ہے: ’’جرمنی آنے سے پہلے بھارت میں مجھے سب لوگ کہا کرتے تھے کہ وہاں تم رقص کو جاری نہیں رکھ سکتی ۔ مگر یہاں (جرمنی ) آکر میں نے رقص کو زیادہ سمجھا ہے۔ اب میں جو کتھک کرتی ہوں وہ میرے اندر کی آواز ہے۔ میں اپنے لئے ناچتی ہوں۔ میں جب سٹیج پر جاتی ہوں تو میں بھول جاتی ہوں کہ میں درگا ہوں۔‘‘

درگا آریا کے لئے رقص صرف ایک پیشہ یا شوق نہیں رہا بلکہ ان کی زندگی بن گیا ہے:’’ شاید میںرقص کے بغیرزندہ نہیں رہ سکتی۔ میں ہر وقت اسی کے بارے میں سوچتی ہوں۔ کھانا بناتے ہوئے،صفائی کے دوران ،ہر وقت کچھ نہ کچھ میرے دماغ میں چلتا رہتا ہے۔‘‘

پاکستان میں کتھک:

وادی سندھ میں پھلنے پھولنے والی موھنجو داڑو کی تہزیب کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہزییوں میں ہوتا ہے ۔وہاں کے کھنڈرات سے ملنے والی رقاصہ کی مورتی سے پتا چلتا ہے کہ اس خطے میں پانچ ہزار سال پہلے بھی رقص کو ایک اہم فن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ رقص کی قدیم ترین کتاب ناٹیہ شاستر بھی اسی دھرتی پر رقم ہوئی جو آج کل پاکستان کا حصہ ہے۔ پاکستان میں کتھک اور کلاسیقی رقص کو کیسے دیکھا جاتا ہے اسی سلسلے میں ہم نے گفتگو کی نگہت چودھری سے جو تقریباً اٹھارہ برس سے پاکستان میں کتھک کی تعلیم دے رہی ہیں۔آج کل وہ لاہور میں اپنا کتھک سکول چلا رہی ہیں۔