کاہن اسکینڈل: فرانس کی حکمران جماعت نے الزامات مسترد کر دیے
27 نومبر 2011یو ایم پی کے سیکرٹری جنرل Jean-Francois Cope کا کہنا ہے کہ یہ الزام بھونڈی کارستانی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’جب تک ان کی حیثیت گمنام شہادت پر مبنی الزامات کی ہے، ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہ بات آپ کی سمجھ میں آ جائے گی کہ ہم بدستور بہت محتاط ہیں اور ہمیں بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’ایسا سوچنا کہ جناب اسٹراؤس کاہن کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں یو ایم پی کا کوئی ہاتھ تھا، مجھے معاف کیجیے، لیکن مجھے یہ کہنے دیجیے کہ یہ واضح طور پر ایک کارستانی ہے۔‘‘
امریکی صحافی ایڈورڈ جے ایپسٹین نے اپنی تفتیشی رپورٹ میں فرانسیسی صدر کی جماعت پر یہ الزام لگایا ہے کہ اسٹراؤس کاہن کے خلاف جنسی اسکینڈل میں اس جماعت کا ہاتھ ہے۔ یہ رپورٹ نیویارک ریویو آف بُک میں شائع ہوئی۔
اس رپورٹ کے نتیجے میں یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ رواں برس مئی میں جنسی زیادتی کی کوششں کے الزام پر امریکہ میں جس وقت ڈومنیک اسٹراؤس کاہن کو گرفتار کیا گیا، کیا اس وقت ان کے سیاسی حریف ان کے بلیک بیری فون کو ٹیپ کر رہے تھے۔
باسٹھ سالہ اسٹراؤس کاہن پر الزام تھا کہ انہوں نے نیویارک کے ایک ہوٹل کی ملازمہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں انہیں اس وقت حراست میں لے لیا گیا تھا، جب وہ نیویارک سے پیرس کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔
ان کے خلاف الزامات اگست میں خارج کیے گئے تھے۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ شکایت گزار کے جھوٹ اس کے الزامات کو ثابت کرنا مشکل بنا چکے ہیں، اس لیے وہ مقدمے کی پیروی نہیں کر سکتے۔
اس کے بعد اسٹراؤس کاہن نے اپنے خلاف مقدمے کو انتہائی مشکل اور غیر منصفانہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے ایک تحریری بیان میں کہا تھا کہ تین مہینے تک چلنے والی قانونی کارروائی ان کے خاندان اور ان کے لیے کسی ڈراؤنے خواب کے مانند تھی۔
اس جنسی اسکینڈل سے قبل اسٹراؤس کاہن کو فرانس میں آئندہ برس کے صدارتی انتخابات کے لیے فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا۔ تاہم اس اسکینڈل نے کاہن کو آئی ایم ایف کے سربراہ کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا تھا جبکہ صدارتی امیدوار کے طور پر ان کی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: شامل شمس