کالابار کی چھوٹی کشتیاں اور بہتر زندگی کی امید
31 مئی 2017کالابار تک پہنچنے والے یہ تارکینِ وطن البتہ بحیرہ روم عبور کر کے یورپ جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے بلکہ نسبتاﹰ کم پُرخطر اور نزدیک میں واقع تیل پیدا کرنے والے امیر افریقی ممالک کی طرف سفر کرنا چاہتے ہیں۔
پینتیس سالہ سمفورین ہونکانرین، مغربی افریقی ریاست بینن کے ایک پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھتا ہے۔ ہونکانرین کے بقول وہاں اُس کے لیے اور اُس جیسے دیگر نوجوانوں کے لیے ماہی گیری کے علاوہ کوئی اور روزگار دستیاب نہیں ہے۔ ہونکانرین کے بھائی اور رشتہ دار پہلے ہی تیل سے مالامال افریقی ریاستوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ ان میں گبون میں لبریوِیل اور استوائی گنی میں مالابو شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق عام خیال کے برعکس افریقی تارکین وطن کی کُل تعداد میں سے نصف سے زائد افریقی براعظم ہی میں ملازمت کی غرض سے اپنے ملکوں سے ہجرت کرتے ہیں۔ ہر سال غیر ملکیوں کی اچھی خاصی تعداد ایک اعشاریہ آٹھ ملین آبادی والے ملک گبون کا رخ کرتی ہے، جو تیل کی دولت سے مالامال ہے۔
یہ مہاجرین برکینا فاسو، مالی، نائجیریا اور بینن کی افریقی ریاستوں سے اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ نئی جگہ پر اُن کے لیے روزگار کے مواقع ہوں گے بھی یا نہیں، تیل کے پیداواری افریقی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔
بینن میں عالمی ادارہ برائے مہاجرت کے ناسیرو افاگنون کا کہنا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ راستے میں کتنے لوگ زندہ بچیں گے اور کتنے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ چونکہ مغربی افریقی ممالک کے اتحاد ’ایکوواس‘ کے رکن ممالک کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی نہیں ہے، اسی لیے مہاجرین کالابار تک پہنچنے کے لیے سڑک کے راستے استعمال کرتے ہیں۔
خلیجِ گنی سے دور واقع پُر امن شہر کالابار سے پڑوسی ریاست کیمرون کی بندرگاہ لِمبے تک پہنچنے کے لیے سات ہزار نائرا لیے جاتے ہیں۔ یہ رقم بیس سے بائیس یورو کے برابر ہوتی ہے۔ وہاں سے گبون تک لے جانے کے لیے یہ مہاجرین ایجنٹوں کو افریقی کرنسی میں تئیس سے پچیس یورو کے برابر رقم ادا کرتے ہیں۔
وسطی کالابار میں مرینا کی بندرگاہ پر انسانی اسمگلروں کا کاروبار بہت جم کر چلتا ہے اور وہاں انہیں ’بزنس مین‘ کہا جاتا ہے۔ انسانی اسمگلنگ کا یہ کاروبار رات کی خاموشی میں کیا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ مہاجرت کے افاگنون کے مطابق کالابار سے گبون تک کے سفر میں کئی دن لگتے ہیں تاہم یہ سمندری سفر بھی خطرات سے پُر ہے۔
افاگنون کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس راستے کی بُحیرہ روم کے سفر کی طرح زیادہ تشہیر نہیں ہوتی لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس سفر کے دوران بھی کشتیاں الٹنے کے واقعات اکثر و بیشتر پیش آتے ہیں۔